موسم سرما کے دوران برفباری اور بارش کے سبب اکثر کشمیر کو بیرون دنیا سے ملانے والی واحد قومی شاہراہ بند ہونے کےسبب وادی کا باقی دنیا سے زمینی رابطہ پوری طرح منقطع ہوجاتا ہے۔
جموں-سرینگر قومی شاہراہ بند رہنے کے باعث ہزاروں مسافر و مال بردار گاڑیاں ادھر ادھر کھڑی رہتی ہیں۔ کروڑوں کا مال خراب ہو جاتا ہے اور ہزاروں مسافر راستے میں ہی شدید سردی کے باوجود رکنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اور کشمیر میں اشیائے ضروریہ کی قلت بھی پیدا ہوجاتی ہے ساتھ ہی گراں فروشی بھی عروج پر پہنچ جاتی ہے۔
کشمیر کو خطہ چناب کے ذریعے جموں صوبے سے ملانے والی سڑک مغل روڈ، جموں صوبے کو راجوری اور پونچھ کو کشمیر سے ملاتی ہے لیکن اس سڑک کو قومی شاہراہ کا درجہ نہیں دیا گیا ہے۔
یہ شاہراہ تقریباً دسمبر سے اپریل تک پانچ ماہ کے لیے مکمل طور سے بند رہتی ہے۔ کیوںکہ اس سڑک پر برف جمع رہتی ہے نتیجتاً خطہ پیر پنجال اور کشمیر کے مابین زمینی رابطہ منقطع ہو کر رہ جاتا ہے۔
اب کشمیر میں مختلف طبقہ ہائے فکر سے وابستہ لوگوں کی مانگ ہے کہ مغل روڑ کو قومی شاہراہ کا درجہ دیا جائے تاکہ جموں سرینگر قومی شاہراہ بند ہونے پر اس کو متبادل کے طور استعمال میں لایا جاسکے اور کشمیر کا زمینی رابطہ باقی دنیا سے منقطع نہ ہو۔
لوگوں کے مطابق موسم سرما میں قومی شاہراہ بند رہنے سے وادی میں بحرانی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے اور مغل روڑ کا درجہ بڑھانا وقت کی اشد ضرورت ہے۔
مغل روڑ کی تعمیر و تجدید کر رہے محکمہ مغل روڑ پروجیکٹ کے افسر ڈی کے کیتھ کے مطابق اس سڑک کو قومی شاہراہ کا درجہ دیے جانے کے منصوبے کے لئے سرکار کو ڈی پی آر بھی بھیجا گیا ہے۔
ان کے مطابق اس ضمن میں اس روڑ کا جائزہ بھی لیا گیا ہے اور اس پر دس کلومیٹر لمبی ٹنل کی تعمیر بھی زیر غور ہے۔ فی الوقت ہر برس مغل روڑ پروجکٹ کومحض پانچ کروڑ روپئے فراہم ہوتے ہیں۔
دو سو ستوانوے کلو میٹر کی مسافت والی جموں سرینگر قومی شاہراہ پر کم از کم 40 کلو میٹر پر زمین کھسکنے کے علاوہ مٹی کے تودے گر آتے ہیں جس سے شاہراہ بند ہو جاتی ہے۔ شاہراہ کی خستہ حالی اور پسیاں گر آنے کے سبب آئے روز اس پر حادثات پیش آتے رہتے ہیں۔ اور تاحال ہزاروں جانیں تلف ہوئی ہیں جبکہ کروڑوں روپے مالیت کا نقصان بھی ہوتا رہتا ہے۔
ادھر مغل شاہراہ کشمیر میں شوپیاں کو جموں صوبہ میں پونچھ ضلع کے بفلیاز سے ملاتی ہے، یہ سڑک 88 کلومیٹر لمبی ہے۔ یہ کشمیر صوبہ میں 44 اور جموں صوبہ میں 44 کلومیٹر ہے۔ اس سڑک کی تعمیر کا کام 2002 میں شروع ہواتھا اور 2012 میں یہ مکمل ہوا۔
مذکورہ سڑک بلندو بالا پہاڑوں اور جنگلوں سے ہوکر گزرتی ہے۔ اس پر شوپیاں سے بارہ کلومیٹر کے بعد پیر کی گلی تک 32 کلومیٹر تک جنگلی حیاتیاتی علاقہ ہے۔ یہ راستہ کشمیر میں قدیم ترین راستہ تصور کیا جاتا ہے اور مغل بادشاہ اس راستے کے ذریعے کشمیر آیا کرتے تھے۔ اس روڈ پر تین مقامات پر مغلوں کی تعمیر شدہ مغل سرائیں بھی ہیں۔ تاہم یہ روڈ کئی مقامات پر خستہ حالی کا شکار ہے ۔