جس جگہ یہ تمام قبریں ہیں وہ پٹھان کمپنی کے لیے مختص ہے۔ ہر قبر پر ناموں کی تختیاں لگی ہیں لیکن کون کی قبر کس کی ہے یہ معلوم کرنے کے لیے بہت زیادہ غور کرنا پڑتا ہے۔
جن لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے یہ وہ لوگ ہیں جن کا ذکر ریل لائف(فلمی) سے لے کر ریئل لائف(حقیقی زندگی) تک ہوتا رہا، یہ لوگ اب اس دنیا میں نہیں ہیں اور ان کے اہلخانہ کو ہی شاید ان کی آخری آرام گاہ کے بارے میں پتہ ہوگا لیکن جرم کی دنیا کی تاریخ لکھنے والے ان افراد کی وجہ سے ممبئی کا ایک مخصوس طبقہ آج بھی مصیبت اور تعصب کا شکار ہے۔
تعلیمی ادارے، سرکاری اور نجی کمپنیوں میں ملازمت کے دوران ممبئی نمبر 8 کا ذکر آتے ہی مشکوک نگاہیں اور تعصب سب کچھ ایک پل میں نمودار ہوتا ہے۔کئی تعلیمی اداروں میں ممبئی نمبر 3، 8 اور 11 ان علاقوں کے لیے نوٹس بورڈ لگایا جاتا ہے اور اگر نوٹس بورڈ نہیں ہے تو وہاں ان کے فارم میں ان کی معلومات کی بنیاد پر انہیں باہر کا راستہ دکھا دیا جاتا ہے۔ کیونکہ ان کا تعلق اُن علاقوں سے ہے جہاں کے لوگوں نے کسی زمانے میں غیر قانونی کاموں کا راستہ اپنایا تھا۔
حالانکہ ہر بات اور سکّے کے دو پہلو ہوتے ہیں لیکن بہت کم ایسے معاملات ہوتے ہیں جن میں بات کے دونوں پہلوؤں پر غور کیا جاتا ہے لیکن ممبئی نمبر 8 کا معاملہ ایسا ہے جس میں ایک پہلو کو نظر میں رکھا میں گیا اور ایک پہلو کو نظرانداز کیا گیا اور اسی کا خمیازہ ان علاقوں کی عوام کو ہمیشہ بھگتنا پڑا۔
ممبئی نمبر 8 کی عوام کو سرکاری محکموں اور تعلیمی اداروں میں تعصب شکار ہونا پڑتا ہے۔ خلافت تحریک کا آغاز، تعلیمی، ادبی، ثقافتی سرگرمیاں، حب الوطنی اور انقلابی سرگرمیوں میں یہاں کی عوام کے کردارکو یا تو فراموش کر دیا گیا ہے یا انہیں تاریخ کے اوراق سے مٹا دیا گیا اور یہی وجہ رہی یہ علاقے آج بھی حکومت کی عدم توجہی کا شکار ہیں۔
ان علاقوں اور یہاں کے عوام کی بدحالی کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہمیشہ سے مسلمانوں نے جن رہنماؤں کا انتخاب کیا .وہی ان کی بدحالی کا سبب بنے اور یہی وجہ ہے کہ جرم اور جرائم سے منسلک لوگ بھلے یہاں نہیں ہیں لیکن ان علاقوں کی شناخت آج بھی ان کے کاموں کی وجہ سے مشہور یا پھر بدنام ہے حالانکہ ان علاقوں کے دامن پر لگے داغ کو دھونے کی ہر ممکن کوشش کی گئی جس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلا۔