آدتیہ ٹھاکرے، ٹھاکرے خاندان کے پہلے فرد ہیں جو انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔
شیوسینا کے بانی بال ٹھاکرے، ان کے بیٹے ادھو ٹھاکرے اور بھتیجے راج ٹھاکرے نے کبھی بھی انتخابات میں حصہ نہیں لیا، یہ پہلا موقع ہے جب ماتوشری سے باہر نکل کر ٹھاکرے خاندان کا کوئی فرد ریاستی انتخابات میں قسمت آزما رہا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ آدتیہ کو ورلی حلقہ اسمبلی سے ہی کیوں امیدوار بنایا گیا ہے؟ ورلی اسمبلی حلقے میں شیوسینا کو سنہ 1990 سے اب تک محض ایک ہی بار شکست کا سامنا ہوا ہے۔ سنہ 2009 میں یہاں سے این سی پی رہنما سچن اہیر کامیاب ہوئے تھے لیکن حال ہی میں وہ شیوسینا میں شامل ہو گئے ہیں جس کی وجہ سے یہ نشست سب سے محفوظ سمجھی جا رہی ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ آدتیہ ٹھاکرے کو انتخابی میدان میں اتارنے کا کیا مقصد ہے؟
مہاراشٹر میں شیوسینا اپنی اتحادی جماعتوں میں بڑی پارٹی رہی ہے اور اس کی شناخت ہندوتو اور بالخصوص مراٹھیوں کے حقوق و وقار کے لیے جدوجہد کرنے والی پارٹی کے طور پر رہی ہے لیکن سنہ 2014 میں بی جے پی کی شاندار جیت کے بعد شیوسینا اور بی جے پی کے درمیان گزشتہ پانچ برسوں کی حکومت میں کئی بار اختلافات نظر آئے۔
دوسری جانب ادھو ٹھاکرے اور شیوسینا کی جانب سے وقتاً فوقتاً یہ بیان آ رہا ہے کہ ریاست کا اگلا وزیراعلی شیوسینا کا ہوگا، جس کی وجہ سے پارٹی میں جوش امڈ رہا ہے۔
شیوسینا کا وزیراعلی بنانے اور آدتیہ کو چہرے کے طور پر کیوں پیش کیا گیا؟
سنہ 2014 کے اسمبلی انتخابات میں شیوسینا کی سیٹوں میں اضافہ ہوا تھا لیکن اس الیکشن میں شیوسینا کو نقصان ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا جا رہا ہے لہذا ادھو ٹھاکرے نے آدتیہ ٹھاکرے کو انتخابی میدان میں اتار کر لوگوں کو پارٹی کی جانب راغب کرنے کے ساتھ ساتھ ریاست میں ٹھاکرے خاندان سے نوجوان قیادت پیش کی ہے لیکن اس سے شیوسینا کو کتنا فائدہ ہوگا یہ تو وقت ہی بتائے گا اور کیا ریاست کے اگلے وزیر اعلی آدتیہ ٹھاکرے بن پائیں گے؟ یہ تصویر 24 اکتوبر کو نتائج کے بعد واضح ہو جائے گی۔