وزارات داخلہ نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ ذاکر نائیک کے بیانات اور ان کی تقاریر قابل اعتراض ہیں اور ان کی وجہ سے مذہبی دشمنیوں کو فروغ ملتا ہے۔ یہی نہیں تفتیشی ایجنسیوں نے کارروائی کے دوران کہا تھا کہ نائیک کے بیان کے سبب ملکی اور غیر ملکی نوجوانوں کو دہشت گردی کی دہانے پر پہنچایا جا رہا ہے۔
اس معاملے پر سماجوادی پارٹی کے رکن اسمبلی ابو عاصم اعظمی نے کہا کہ مرکزی حکومت کو ہر اس تنظیم پر پابندی لگانی چاہئے جو حکومت یا ملک کے قانون کے خلاف کوئی کام کرتی ہے یا وہ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث پائی جاتی ہو۔
انہوں نے کہا کہ چونکہ ذاکر نائیک نے اعلانیہ اسلام کی تبلیغ کی۔ اسلام کے متعلق غلط فہمی پھیلانے والوں کو منہ توڑ جواب دیا۔ اس لئے حکومت کو ذاکر نائیک سے تکلیف ہے۔
اعظمی نے کہا کہ ہندو تنظیمیں آخر اس کارروائی کے دائرے میں کیوں نہیں آتی۔ ابھینو بھارت اور دوسری ہندو شدت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائی کے لئے طویل عرصے سے مطالبہ کیا جارہا ہے لیکن آج تک ان کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔
ہم آپ کو بتا دیں کہ ذاکر نائیک کی تنظیم کے تحت ایک اسکول چلایا جا رہا تھا۔ ذاکر نائیک کے بھارت چھوڑنے کے بعد اس اسکول کو بند کر دیا گیا جس کے بعد طلبہ کے مستقبل کو دیکھتے ہوئے سماجوادی پارٹی کے رکن اسمبلی ابو عاصم نے اس اسکول کو چلانے کی ذمہ داری لی تھی لیکن ممبئی پورٹ ٹرسٹ کی زمین پر تعمیر اس اسکول کو بھی منہدم کر دیا گیا۔ فی الحال ممبئی کے مجگاؤں علاقے میں ہی اس اسکول کی دوبارہ تعمیر کی جارہی ہے، تاکہ بچوں کا مستقبل تباہ ہونے سے بچایا جا سکے۔
ذاکر نائیک ممبئی کے مجگاؤں علاقے میں جاسمین اپارٹمنٹ میں مقیم تھے۔ ذاکر نائیک کے خلاف کارروائی کے بعد وہ کچھ دنوں تک سعودی عرب میں مقیم رہے۔ اس کے بعد انہیں ملیشیا حکومت نے ہاتھوں ہاتھ لیا اور فی الحال وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ ملیشیا میں ہی مقیم ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں اپنے بیٹے کی شادی کے لئے سوشل سائٹس پر یہ بات رکھی تھی کہ انہیں ایک اسلامک روایتوں سے آراستہ دوشیزہ کی تلاش ہے، جس کا نکاح وہ اپنے بیٹے سے کر سکیں۔
ذاکر نائیک نے ایک نجی چینل پیس ٹی وی کی بنیاد ڈالی تھی، جو مذہبی پروگرام کے ذریعه بھارت میں جلد مقبول ہو گئی تھی لیکن حکومت نے اس چینل پر بھی پابندی عائد کر دی تھی کیونکہ بھارتی قوانین کے تحت اس چینل کو نشر نہیں کیا جا رہا تھا۔ ان کی آفس اور اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کا دفتر بھی ممبئی کے ڈونگری علاقے میں تھا لیکن ای ڈی کی کارروائی کے بعد ان جگہیں پر قفل لگا ہے حالانکہ ان کے بھائی محمد نائیک ممبئی میں ایک ڈایگنوسٹک سنیٹر چلاتے ہیں لیکن ذاکر نائیک پر کارروائی کے بعد وہ ساری جگہیں سیل کر دی گئی ہیں، جن کا سیدھے سیدھے تعلق ذاکر نائیک سے تھا یا ان کی تنظیم اسلامک ریسرچ فاونڈیشن سے تھا۔
اس کے علاوہ ذاکر نائیک نے ممبئی کے کئی بلڈر کے کنسٹرکشن پیشے میں خاصا سرمایہ لگایا تھا۔ ان بلڈروں کو بھی تفتیشی ایجنسیوں نے طلب کیا تھا۔ ای ٹی وی بھارت نے محمد نائیک سے بھی بات کرنے کی کوشش کی لیکن انہوں نے اس بارے میں کسی بھی طرح کی بات کرنے سے انکار کر دیا۔
ذاکر نائیک ملیشیا میں ہیں لیکن وہ سوشل سائٹس پر پوری طرح سے سرگرم ہیں۔ انہوں نے ملیشیا میں رہتے ہوئے بھارتی حکومت اور نریندر مودی پر کئی سارے سنسی خیز الزام لگائے۔ نائیک نے کہا تھا کہ کشمیر کے معاملے کو لیکر وہ مودی حکومت کی طرفداری کرتے تو اس کے بدلے میں انہیں بھارتی حکومت کی جانب سے کارروائی کا سامنا نہیں کرنا پڑتا۔ نائیک کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس تجویز کو ٹھکرا دیا تھا۔
ذاکر نائیک نے مرکزی حکومت پر یہ الزام لگایا تھا کہ ان کے پاس مرکزی حکومت نے اپنے ایک رہنما کو بھیجا تھا۔ کشمیر میں 370 ہٹانے کے تعلق سے ذاکر نائیک کو اس کی تائید کرنے کے لیے کہا اور حکومت کے فیصلے کا ساتھ دینے کے لئے کہا تھا لیکن انہوں نے انکار کر دیا تھا۔ نائیک کے بیان کے بعد کانگریس رہنما دگ وجے سنگھ نے مرکزی حکومت سے ذاکر نائیک کے الزام کو لیکر جواب مانگا تھا لیکن مرکز کی جانب سے کوئی خاطر خواہ جواب نہیں ملا۔
یہ بھی پڑھیں: Kartarpur Corridor: عقیدت مندوں کے لیے رجسٹریشن کا عمل شروع
ذاکر نائیک کی ممنوعہ تنظیم اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام چلائے جانے والے تعلیمی ادارے اور تبلیغی مراکز میں ملازمت کرنے والوں نے کارروائی کے بعد دوسری جگہ پر ملازمت کرنے میں عافیت سمجھی۔ کئی لوگ اب بھی ملازمت کی تلاش میں ہیں اور امید میں بیٹھے ہیں کہ اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کی پھر سے ایک بار تشکیل کی جائےگی اور ذاکر نائیک کی بھارت واپسی ہوگی لیکن پابندیوں میں توسیع کے بعد ان کی امید پر پانی پھر گیا ہے۔