روزآنہ رات کے وقت مریضوں کو قطاروں کی صورت میں داخل کیا جارہا ہے۔ ایسے میں آکسیجن سلنڈر کا سپلائی کم ہونے کی وجہ سے کووڈ سینٹرز میں آکسیجن سلنڈر کی شدید قلت محسوس ہورہی ہیں۔
واضح رہے کہ شہر کے سبھی سرکاری اور غیر سرکاری اسپتالوں کے بیڈ فل ہوچکے ہیں۔ ایسے میں بیرون شہر کے علاوہ شہر کے مغربی حصے کے مریضوں کی تعداد بہت زیادہ بتاتی جارہی ہیں۔ جس سے ان علاقوں میں دہشت کا ماحول پیدا ہوگیا ہے اور دہشت کی وجہ سے اموات کی شرح ان مغربی حصوں میں روزانہ بڑھتی جارہی ہیں۔
وہیں مسلم اکثریتی علاقوں میں شرح اموات بہت کم دیکھی جارہی ہے۔ اس تعلق سے قبرستان آفس کے ذمہ دار خالد احمد عبدالحمید نے نمائندے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ قبرستانوں میں شرح اموات معمول کے مطابق ہے شہر کے بڑا قبرستان اور عائشہ نگر قبرستان کے موجود ریکاڈ کے مطابق یکم اپریل سے 14 اپریل کے درمیان 135 اموات واقع ہوئی ہے۔
روز دو یا تین میت آرہی ہے۔ جس میں زیادہ طر میت اطراف کے دیہاتوں کی پائی جارہی ہیں اور دوسری طرف شمشان بھومی سے مختار احمد نے کہا کہ یکم اپریل سے 14 اپریل کے درمیان 458 اموات واقع ہوئی ہے اور وہ روزآنہ 20 سے 25 لاشوں کو آخری رسومات ادا کر رہے ہیں۔
وہ یہ کام تقریباً ایک سال انجام دے رہے ہے اور اب تک ایک ہزار سے زائد میت کو ہندو رسم رواج کے مطابق آخری رسومات ادا کر چکے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ ایک دن میں شمشان میں اتنی زیادہ میت آتی ہے کہ ان کو جلانے کے لئے جگہ بھی باقی نہیں بچی ہے۔ تو ایسی صورتحال میں چبوتروں کے نیچے زمین پر مردوں کو جلانا پڑتا ہے۔ ایک وقت میں میت کی اتنی بڑی تعداد شمشان بھومی میں آنے سے کارکنان میں خوف و دہشت کا ماحول پیدا ہوگیا ہے۔ اس لئے مختار احمد انسانیت کے رشتے سے وہ یہ کام انجام دے رہے ہیں۔
شمشان کے قریب میں واقع ایک بکھار مالک نے بتایا کہ عام دنوں میں شمشان میں لکڑیاں ایک یا دو مرتبہ لگتی تھی۔ لیکن کوویڈ کی وجہ سے اب روزآنہ دس سے بارہ مرتبہ لکڑیاں لگا رہی ہے جس کی وجہ سے لکڑیاں ملنے میں دشواریوں پیدا ہورہی ہے۔
مزید پڑھیں:
ماسک کے بغیر گھومنے والے افراد کی اسی جگہ پر ہی ہوگی کورونا جانچ
انہوں نے کہا کہ یہاں گاؤں کے لوگوں کی میت بہت کم آتی ہے زیادہ تر اطراف کے دیہاتوں اور اضلاع کے لوگوں کی میت آرہی ہیں جو شہر کے کوویڈ سینٹرز میں زیر علاج تھے۔