اس موقع پر شاعر ضیا فاروقی نے کہا تاج بھوپالی کے یہاں ایک تازہ فکر تھی آزادی کے بعد سے تاج بھوپالی کی غزلیں جو نکل کر آئیں اس میں بہت طرح کے رنگ دکھائی دیئے۔ اس میں جدیدیت اور ترقی پسند گی کے بھی اثرات تھے- وہ ترقی پسند تحریک سے منسلک تھے۔ ان کا ایک شعر بہت مشہور ہوا۔
" پیچھے بندھے ہاتھ پر شرط ہے سفر"
" کس سے کہے کہ پاؤں کے کانٹے نکال دے"
بھوپال کے ادیب نعمان خان تاج بھوپالی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایک خوش فکر اور ترقی پسند شاعر تھے انہوں نے زیادہ نہیں لکھا ہے لیکن جو وہ اپنا کلام چھوڑ گئے ہیں وہ اپنے آپ میں قابل ذکر ہے۔
وہیں بھوپال کے ادیب اقبال مسعود کہتے ہیں کہ علی سردار جعفری نے اختر سعید کے لئے کہا تھا کی وہ ایک ایسی بلبل ہے جو جنگل میں گا رہی ہے لیکن جسے زیادہ لوگوں نے نہیں سنا ہے- اسی طرح ہمارے تاج بھوپالی کا معاملہ رہا ہے- انہوں نے کہا جتنے بھی ترقی پسندوں کی جتنی بھی کتابیں آئی اس میں تاج بھوپالی کا ذکر ضرور کیا گیا ہےتھا۔