ETV Bharat / state

Indore Law Collegeمسلم پرنسپل کی گرفتاری پر اصرار کیلئے چیف جسٹس نے ڈانٹ پلائی

مدھیہ پردیش حکومت ڈاکٹر انعام الرحمان کو گرفتار کرنے کے درپے کیوں ہے؟ لاء کالج کے پرنسپل کے خلاف صرف اس بات پر ہنگامہ برپا کیا گیا کہ لائبریری میں ایک کتاب موجود تھی جس میں مبینہ طور ہندو مخالف مواد درج تھا۔ پرنسپل اپنے عہدے سے مستعفی ہونے پر مجبور ہوئے۔ SC questions MP police about arresting law college principal over alleged "Hinduphobic" book

سپریم کورٹ
سپریم کورٹ
author img

By

Published : Jan 16, 2023, 8:06 PM IST

نئی دہلی: چیف جسٹس آف انڈیا نے پیر کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی ریاست مدھیہ پردیش کی حکومت کو اس بات پر لتاڑا کہ وہ ایک کالج پرنسل کی گرفتاری پر صرف اس لئے زور دے رہی ہے کیونکہ کالج کی لائبریری میں ایک ایسی کتاب ملی ہے جس میں مبینہ طور پر ہندوؤں کے خلاف مواد موجود ہے۔مدھیہ پردیش حکومت چاہتی ہے کہ مزکورہ پرنسپل کی پیشگی ضمانت کی درخواست کو چیلنج کرے۔

یہ معاملہ اسوقت سامنے آیا جب عدالت عظمیٰ اندور کے گورنمنٹ نیو لا کالج کے مستعفی پرنسپل کی طرف سے دائر درخواست کی سماعت کر رہی تھی۔ ڈاکٹر انعام الرحمان نامی سابق پرنسپل کیس میں گرفتاری سے پیشگی تحفظ مانگ رہے ہیں۔ 16 دسمبر 2022 کو عدالت نے انہیں گرفتاری سے اسوقت عبوری تحفظ دیا تھا، جب مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کی طرف سے ایسی درخواست پر عبوری ریلیف نہیں ملا تھا۔

آج جب معاملہ اٹھایا گیا تو درخواست گزار کے وکیل ایڈوکیٹ الجو کے جوزف نے چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی قیادت والی بنچ کو مطلع کیا کہ انکے مؤکل کو مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے 22 دسمبر 2022 کو پیشگی ضمانت دی ہے۔

چونکہ سپریم کورٹ میں عرضداشت کا مقصد پورا ہوچکا تھا اسلئے جب بنچ ہائی کورٹ کے حکم کے پیش نظر درخواست کو نمٹانے کی کارروائی کر رہا تھا تو ریاست کے وکیل نے بینچ کی طرف رجوع کرتے ہوئے کہا کہ ریاست پیشگی ضمانت دینے کے حکم کو چیلنج کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ریاست کے اس موقف نے بینچ کو حیران و ششدر کر دیا۔

"جسٹس چندر چوڑ نے اس پر تیکھے انداز میں وکیل کو کہا کہ کیا واقعی آپ (ضمانت کو روکنے کیلئے) سنجیدہ ہیں۔ ریاست کو اپنی توجہ کچھ اور سنجیدہ چیزوں کی جانب مبذول کرنی چاہئے۔ وہ ایک کالج پرنسپل ہیں آپ اسے کیوں گرفتار کر رہے ہیں؟ صرف اسلئے کہ انکی لائبریری میں ایک کتاب ملی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کچھ فرقہ وارانہ مواد ہے۔یہ کتاب 2014 میں خریدی گئی تھی۔

ریاست کے وکیل نے کہا کہ طلباء نے شکایت کی ہے کہ درخواست گزار اسی کتاب سے پڑھا رہا ہے، جو ان کے دفاع سے میل نہیں کھاتا۔

چیف جسٹس نے سرکاری وکیل سے کہا کہ اگر آپ ضمانت کی مخالفت کرنا چاہتے ہیں تو کریں ، ہم اس سے نمٹ لیں گے۔انہوں نے کہا کہ اگر آپ آرڈر کو چیلنج کرنا چاہتے ہیں، تو آپ ایسا کریں۔ ہم اس سے نمٹ لیں گے۔

قابل ذکر ہے کہ زیر بحث ایف آئی آر، ایل ایل ایم کے ایک طالب علم نے ڈاکٹر فرحت خان (ملزم 1) کی لکھی ہوئی اور امر لاء پبلی کیشنز (ملزم 4) کی شائع کردہ کتاب "اجتماعی تشدد اور مجرمانہ انصاف کے نظام" پر درج کرائی تھی۔ درخواست گزار کو ملزم 2 کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ شکایت کنندہ نے دعویٰ کیا کہ کتاب جھوٹے اور بے بنیاد حقائق پر مبنی ہے، یہ اصلاً ملک دشمن ہے، اور اس کا مقصد عوامی امن، سالمیت اور مذہبی جذبات کو نقصان پہنچانا ہے۔

درخواست گزار ڈاکٹر انعام الرحمان نے کہا کہ زیر بحث کتاب 2014 میں شائع ہوئی تھی اور کالج نے 2014 میں بھی خریدی تھی۔ درخواست گزار کے مطابق وہ اس وقت کالج میں پروفیسر تھے نہ کہ کالج کے پرنسپل۔

انہوں نے استدلال کیا کہ مقدمہ سیاسی وجوہات کی بنا پر درج کیا گیا تھا اور درخواست گزار، جسکا کتاب کی اشاعت یا مارکیٹنگ میں کوئی رول نہیں ہے، کو غیر ضروری طور پر کیس میں گھسیٹا گیا۔ درخواست کے مطابق، کتاب درخواست گزار کے دور میں نہیں بلکہ 2014 میں خریدی گئی تھی، جب وہ محض ایک پروفیسر تھے اور کالج کی لائبریری کے لیے کتابیں خریدنے کے عمل میں شامل نہیں تھے۔

اس کتاب کی موجودگی کے خلاف بھاجپا کی اسٹوڈنٹس ونگ اے بی وی پی نے احتجاج کیا تھا جس کے بعد ڈاکٹر انعام الرحمان نے پرنسپل کے عہدے سے استعفیٰ دے۔ مقامی ذرائع کے مطابق اے بی وی پی اصل میں لا کالج کے اعلیٰ عہدے پر اقلیتی فرقے سے وابستہ ماہر قانون کی تقرری کے خلاف تھے اور انہوں نے کتاب کا بہانہ بناکر امن میں خلل ڈالا جس کے بعد پرنسپل موصوف نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا۔

مزید پڑھیں:ABVP Protest اندور میں ڈاکٹر فرحت کی کتاب پر ہنگامہ، جانچ کی ہدایت

نئی دہلی: چیف جسٹس آف انڈیا نے پیر کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی ریاست مدھیہ پردیش کی حکومت کو اس بات پر لتاڑا کہ وہ ایک کالج پرنسل کی گرفتاری پر صرف اس لئے زور دے رہی ہے کیونکہ کالج کی لائبریری میں ایک ایسی کتاب ملی ہے جس میں مبینہ طور پر ہندوؤں کے خلاف مواد موجود ہے۔مدھیہ پردیش حکومت چاہتی ہے کہ مزکورہ پرنسپل کی پیشگی ضمانت کی درخواست کو چیلنج کرے۔

یہ معاملہ اسوقت سامنے آیا جب عدالت عظمیٰ اندور کے گورنمنٹ نیو لا کالج کے مستعفی پرنسپل کی طرف سے دائر درخواست کی سماعت کر رہی تھی۔ ڈاکٹر انعام الرحمان نامی سابق پرنسپل کیس میں گرفتاری سے پیشگی تحفظ مانگ رہے ہیں۔ 16 دسمبر 2022 کو عدالت نے انہیں گرفتاری سے اسوقت عبوری تحفظ دیا تھا، جب مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کی طرف سے ایسی درخواست پر عبوری ریلیف نہیں ملا تھا۔

آج جب معاملہ اٹھایا گیا تو درخواست گزار کے وکیل ایڈوکیٹ الجو کے جوزف نے چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی قیادت والی بنچ کو مطلع کیا کہ انکے مؤکل کو مدھیہ پردیش ہائی کورٹ نے 22 دسمبر 2022 کو پیشگی ضمانت دی ہے۔

چونکہ سپریم کورٹ میں عرضداشت کا مقصد پورا ہوچکا تھا اسلئے جب بنچ ہائی کورٹ کے حکم کے پیش نظر درخواست کو نمٹانے کی کارروائی کر رہا تھا تو ریاست کے وکیل نے بینچ کی طرف رجوع کرتے ہوئے کہا کہ ریاست پیشگی ضمانت دینے کے حکم کو چیلنج کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ ریاست کے اس موقف نے بینچ کو حیران و ششدر کر دیا۔

"جسٹس چندر چوڑ نے اس پر تیکھے انداز میں وکیل کو کہا کہ کیا واقعی آپ (ضمانت کو روکنے کیلئے) سنجیدہ ہیں۔ ریاست کو اپنی توجہ کچھ اور سنجیدہ چیزوں کی جانب مبذول کرنی چاہئے۔ وہ ایک کالج پرنسپل ہیں آپ اسے کیوں گرفتار کر رہے ہیں؟ صرف اسلئے کہ انکی لائبریری میں ایک کتاب ملی ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ کچھ فرقہ وارانہ مواد ہے۔یہ کتاب 2014 میں خریدی گئی تھی۔

ریاست کے وکیل نے کہا کہ طلباء نے شکایت کی ہے کہ درخواست گزار اسی کتاب سے پڑھا رہا ہے، جو ان کے دفاع سے میل نہیں کھاتا۔

چیف جسٹس نے سرکاری وکیل سے کہا کہ اگر آپ ضمانت کی مخالفت کرنا چاہتے ہیں تو کریں ، ہم اس سے نمٹ لیں گے۔انہوں نے کہا کہ اگر آپ آرڈر کو چیلنج کرنا چاہتے ہیں، تو آپ ایسا کریں۔ ہم اس سے نمٹ لیں گے۔

قابل ذکر ہے کہ زیر بحث ایف آئی آر، ایل ایل ایم کے ایک طالب علم نے ڈاکٹر فرحت خان (ملزم 1) کی لکھی ہوئی اور امر لاء پبلی کیشنز (ملزم 4) کی شائع کردہ کتاب "اجتماعی تشدد اور مجرمانہ انصاف کے نظام" پر درج کرائی تھی۔ درخواست گزار کو ملزم 2 کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ شکایت کنندہ نے دعویٰ کیا کہ کتاب جھوٹے اور بے بنیاد حقائق پر مبنی ہے، یہ اصلاً ملک دشمن ہے، اور اس کا مقصد عوامی امن، سالمیت اور مذہبی جذبات کو نقصان پہنچانا ہے۔

درخواست گزار ڈاکٹر انعام الرحمان نے کہا کہ زیر بحث کتاب 2014 میں شائع ہوئی تھی اور کالج نے 2014 میں بھی خریدی تھی۔ درخواست گزار کے مطابق وہ اس وقت کالج میں پروفیسر تھے نہ کہ کالج کے پرنسپل۔

انہوں نے استدلال کیا کہ مقدمہ سیاسی وجوہات کی بنا پر درج کیا گیا تھا اور درخواست گزار، جسکا کتاب کی اشاعت یا مارکیٹنگ میں کوئی رول نہیں ہے، کو غیر ضروری طور پر کیس میں گھسیٹا گیا۔ درخواست کے مطابق، کتاب درخواست گزار کے دور میں نہیں بلکہ 2014 میں خریدی گئی تھی، جب وہ محض ایک پروفیسر تھے اور کالج کی لائبریری کے لیے کتابیں خریدنے کے عمل میں شامل نہیں تھے۔

اس کتاب کی موجودگی کے خلاف بھاجپا کی اسٹوڈنٹس ونگ اے بی وی پی نے احتجاج کیا تھا جس کے بعد ڈاکٹر انعام الرحمان نے پرنسپل کے عہدے سے استعفیٰ دے۔ مقامی ذرائع کے مطابق اے بی وی پی اصل میں لا کالج کے اعلیٰ عہدے پر اقلیتی فرقے سے وابستہ ماہر قانون کی تقرری کے خلاف تھے اور انہوں نے کتاب کا بہانہ بناکر امن میں خلل ڈالا جس کے بعد پرنسپل موصوف نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا۔

مزید پڑھیں:ABVP Protest اندور میں ڈاکٹر فرحت کی کتاب پر ہنگامہ، جانچ کی ہدایت

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.