بھوپال : ریاست مدھیہ پردیش میں 17 نومبر کو اسمبلی انتخابات کا اعلان ہو چکا ہے۔ جس کے مد نظر سیاسی پارٹیاں سرگرم تو ہے ہی لیکن اس بار مسلم تنظیمیں بھی خاصی سرگرم نظر آرہی ہے۔ جب ہم نے تنظیم بے نظیر انصار ایجوکیشن سوسائٹی کے صدر اور ریٹائرڈ ڈی جی ایم ڈبلیو انصاری سے اسمبلی انتخابات پر گفتگو کی تو انہوں نے ای ٹی وی بھارت اردو کو بتایا کہ کرناٹک کے انتخابات کے بعد کانگریس پارٹی پرجوش نظر آرہی ہے۔ لیکن جس طرح کے حالات سامنے آ رہے ہیں، اس بار کے انتخابات چونکانے والے ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ پسماندہ طبقات 80 سے 85 فیصد ہے اور ان پسماندہ طبقات کو جب تک کوئی پارٹی اگر صحیح امیدوار نہیں دے گی جس میں ایس ٹی، ایس سی اور او بی سی بھی شامل ہے۔ یہ نہ کہ پارٹی کی سطح پہ بلکہ امیدوار کی سطح پر، اس بار انتخابات میں حصہ لیں گے۔ انہوں نے کہا پسماندہ طبقات میں 11 فیصد مسلم طبقہ ہے جسے 28 سے لے کر 32 سیٹیں مسلم امیدوار ملنا چاہیے۔ لیکن ہمیں اس بات کا علم ہے کہ یہ پارٹیاں 4 سے لے کر 6 امیدوار ہی مسلم اتاریں گے۔ اور ایسے میں یہ ہو سکتا ہے کہ بی ایس پی اور آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین آپس میں مل سکتے ہیں اور اپنے امیدوار کو میدان میں اتار سکتے ہیں جس میں عام آدمی پارٹی بھی شامل ہو سکتی ہے۔
ایم ڈبلیو انصاری نے کہا کہ پارٹیاں اہم مسائل پر بات کرنے کو تیار نہیں ہے۔ انہوں نے کہا پسماندہ طبقات میں کہیں برادری شامل ہے۔ جس میں انصاری، رائین، منصوری قریشی، اور دیگر برادریاں کو جب تک کہ ان کا امیدوار نہیں دیا جاتا ہے تو وہ دیگر امیدواروں کے لئے اپنی ووٹنگ کریں گے۔ اس سوال پر کہ ریاست کے کون کون سے اسمبلی حلقے میں مسلم امیدواروں کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اس پر انہوں نے جواب دیا کہ گوالیار میں دو اسمبلی حلقے، جبلپور میں دو اسمبلی حلقے، اندور میں دو اسمبلی حلقے وہیں ضلع کھنڈوا، کھرگون شامل ہیں۔ اسی طرح سے ریاست میں بہت سی ایسے اسمبلی حلقے ہیں جہاں پر مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دی جا سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بھوپال میں دو اسمبلی حلقے ہیں اور پاس میں سیرونج، کروائی، گنج باسودہ اور ضلع رائیسن میں بھی یہاں 30 ہزار سے لے کر 42 ہزار تک مسلم رائے ہندگان موجود ہے۔ انہوں نے کہا کہ المیہ یہ ہے کہ اگر 35 ایس سی، 45 ایس ٹی کی بات کی جائے تو اس میں سے بھی 40 فیصد میں اکثریت مسلم طبقے کی سیٹیں ہیں جو کہ اس بار کے انتخابات پر اثر ڈالے گی۔ انہوں نے کہا کہ بہت سی ایسی جگہیں ہیں جہاں پر نا انصافی کرتے ہوئے مسلم امیدوار ہونے چاہیے وہاں پر مسلم امیدوار نہیں دیے جاتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بھارتی جنتا پارٹی کے لیڈر اور ملک کے وزیراعظم نریندر مودی نے حیدرآباد میں پسماندہ طبقات کا نام لیتے ہوئے کہا تھا اور میں سوال ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا بھارتی جنتا پارٹی آبادی کے تناسب کے مطابق مسلم طبقے کو ٹکٹ دے گی۔ لیکن اب کھل کر بات کی جا رہی ہے کہ ہمارے پاس اکثریت کی جمہوریت ہے جو کہ ڈکٹیٹر شپ کی طرف جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ جتنی بھی بڑی بڑی پارٹیاں ہیں چاہے وہ کانگریس کیوں نہ ہو وہ صرف بھوپال میں عارف مسعود، عارف عقیل اور کچھ جگہوں کو ملا کر محض 4 ٹکٹ ہی دے گی جو کہ مسلمانوں کی ہوگی۔ انہوں نے کہا ابھی تک کانگریس پارٹی نے کبھی بھی 25 سے 28 ٹکٹ مسلم امیدواروں کو نہیں دی ہے۔
مزید پڑھیں: جمعیت علماء کی ووٹر کارڈ بیداری مہم
اس سوال پر کہ ریاست میں بھارتی جنتا پارٹی اور کانگریس کے علاوہ ریاست کے ووٹرز کیا دیگر پارٹی کی طرف بھی رخ کر سکتے ہیں۔ اس پر انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت سے عوام پریشان ہے ایسے میں ہو سکتا ہے کہ ریاست مدھیہ پردیش میں کانگریس کی جانب ووٹر راغب ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر انتخابات میں کانگریس کو اکثریت نہیں ملتی ہے تو کانگریس ٹوٹ جائے گی۔ انہوں نے کہا حال میں سب سے بڑی پارٹی بھارتی جنتا پارٹی ہے اور ان کے پاس پیسہ بھی بہت ہے۔ اور کانگریس سب سے بڑی پارٹی ہونے کے باوجود بھی معاشی طور پر کمزور ہے اور اسی طرح سے چھتیس گڑھ، راجستھان اور دیگر جگہوں کا بھی یہی معاملہ ہے۔
واضح رہے کہ ریاست مدھیہ پردیش میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں مسلم طبقہ ایک اہم رول ادا کر سکتا ہے۔ کیونکہ جہاں مسلم طبقہ اس بار سیاسی پارٹیوں میں اپنے امیدواروں کے لیے زیادہ ٹکٹوں کا مطالبہ کر رہا ہے تو وہیں مسلم طبقہ اس بار ہونے والے اسمبلی انتخابات میں اپنی ووٹوں کے ذریعہ ایک نیا بدلاؤ بھی لا سکتے ہیں۔