ETV Bharat / state

کٹھوعہ کیس میں جانیے کب کیا ہوا

author img

By

Published : Jun 10, 2019, 9:05 PM IST

رسانہ میں متاثرہ اور مقتولہ معصومہ کی تدفین کے لیے جب قبر کھودنا شروع کیا گیا تو وہاں اکثریتی طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے اس مخالفت کی جس کے بعد بچی کو قریب دس کلو میٹر دور ایک گاؤں میں دفنایا گیا۔

فائل فوٹو

کٹھوعہ جنسی زیادتی کیس میں بعض سیاسی رہنماؤں نے ملزمان کو بچانے کی کوششیں کی تھیں۔ 'ہندو ایکتا منچ' نامی تنظیم کی طرف سے ملزمان کے حق میں ترنگا جلوس نکالنے گئے تھے تو کٹھوعہ میں وکلاء کی جانب سے کرائم برانچ کو ملزمان کے خلاف چارج شیٹ دائر کرنے سے روکنے کی کوشش کی گئی تھی حتی کہ متاثرہ کنبے کا سماجی بائیکاٹ بھی کیا گیا تھا یہ سب واقعات قومی اور عالمی خبروں کی سرخیاں بنیں۔

5
فائل فوٹو
جانیں اس معاملے میں کب کیا ہوا؟

گزشتہ برس 12 جنوری کو ضلع کٹھوعہ کے رسانہ نامی گاؤں سے تعلق رکھنے والے محمد یوسف پجوال شکایت لے کر پولیس تھانہ ہیرا نگر پہنچے۔

3
فائل فوٹو
گجر بکروال طبقے سے تعلق رکھنے والے محمد یوسف نے اپنی شکایت میں کہا کہ اُن کی آٹھ سالہ بیٹی 10 جنوری 2018ء کو گھوڑے چرانے کے لیے نزدیکی جنگل گئی تھی۔ شام کے چار بجے گھوڑے واپس لوٹ آئے لیکن لڑکی واپس نہیں لوٹی۔
2
فائل فوٹو
پولیس تھانہ ہیرا نگر نے شکایت پر ایف آئی آر درج کرکے تحقیقات شروع کردی۔

17 جنوری 2018ء کو کمسن بچی کی لاش نزدیکی جنگل میں جھاڑیوں سے برآمد کی گئی۔
پولیس نے بچی کی لاش اپنے تحویل میں لے لیا اور ضلع ہسپتال کٹھوعہ میں پوسٹ مارٹم کے بعد آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے لاش لواحقین کے حوالے کر دی گئی۔
مقتولہ بچی کے لیے جب رسانہ میں قبر کھودنا شروع کیا گیا تو وہااکثریتی طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے اس مخالفت کی جس کے بعد بچی کو قریب دس کلو میٹر دور ایک گاؤں میں دفنایا گیا۔

13
فائل فوٹو

تحقیقات کے دوران پولیس تھانہ ہیرا نگر نے عصمت دری و قتل واقعہ کے منصوبہ ساز سانجی رام کے نابالغ بھتیجے کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا۔
پوچھ گچھ کے دوران نابالغ ملزم نے انکشاف کیا کہ وہ شراب، سگریٹ اور دیگر نشہ آور چیزوں کا عادی ہے۔ اسے اسکول سے اس وجہ سے نکالا جاچکا ہے کہ وہ لڑکیوں کے ساتھ بدتمیزی کرتا تھا۔

بائیس جنوری کو ریاستی حکومت نے کیس کی تحقیقات کرائم برانچ کے حوالے کردی۔ کرائم برانچ نے نابالغ ملزم کی جسمانی ریمانڈ حاصل کی اور اس کے انکشافات پر دیگر تمام ملزمان کو حراست میں لے لیا۔

8
فائل فوٹو

کرائم برانچ کی طرف سے عدالت میں دائر کی گئی چارج شیٹ کے مطابق جنوری 2018ء کے پہلے ہفتے میں سانجی رام نے رسانہ میں رہائش پذیر گجر بکروال کنبوں کو وہاں سے بھگانے کی منصوبہ بندی شروع کی۔
سانجی رام نے محکمہ پولیس کے ایس پی او دیپک کھجوریہ اور اپنے نابالغ بھتیجے کو آٹھ سالہ بچی کو اغوا کرنے کا کام سونپا۔ نابالغ ملزم نے یہ پورا منصوبہ اپنے قریبی دوست پرویش کمار عرف منو کے ساتھ شیئر کیا اور اسے منصوبے کا حصہ بنایا۔

4
فائل فوٹو

دس جنوری 2018ء کو سانجی رام کے بھتیجے (نابالغ ملزم) اور اس کے دوست پرویش کمار نے لڑکی کو اغوا کرکے منصوبے کے مطابق سانجی رام کے ذاتی مندر (دیوی استھان) پہنچایا۔ کمسن بچی کوزبردستی نشیلی ادویات کھلایا گیا جس کی وجہ سے بیہوش ہوگئی۔ سب سے پہلے نابالغ ملزم نے کمسن بچی کا ریپ کیا۔ پھر پرویش کمار اور ایس پی او دیپک کھجوریہ نے باری باری لڑکی کا ریپ کیا۔

9
فائل فوٹو

چارج شیٹ کے مطابق 11 جنوری کو نابالغ ملزم نے میرٹھ کے ایک کالج میں زیر تعلیم سانجی رام کے بیٹے وشال جنگوترا کو فون کیا اور کہا کہ وہ اپنی جنسی ہوس کی تسکین کے لئے رسانہ آسکتا ہے۔ وشال فوراً میرٹھ سے نکلا اور 12 جنوری کی صبح رسانہ پہنچا۔ اس دوران سانجی رام نے پولیس کی تحقیقاتی ٹیم کے اہلکاروں سب انسپکٹر آنند دتا اور ہیڈ کانسٹیبل تلک راج کو کمسن بچی کا کیس رفع دفع کرنے کے لئے پیسوں کی پیشکش کرڈالی جو انہوں نے قبول کی۔

10
فائل فوٹو

تیرہ جنوری کی صبح کلیدی ملزم سانجی رام اور دیگر کچھ ملزمان دیوی استھان پہنچے اور وہاں پوجا کی۔ سانجی رام وہاں سے نکلا تو وشال جنگوترا اور نابالغ ملزم نے کمسن بچی کا ریپ کیا۔ گھر میں سانجی رام نے نابالغ ملزم کو کہا کہ حقیقی مقصد حاصل کرنے کے لئے بچی کے قتل کرنے کا وقت آپہنچا ہے۔

6
فائل فوٹو
سانجی رام کی ہدایت پر نابالغ ملزم، پرویش کمار اور وشال جنگوترا نے بچی کو دیوی استھان سے باہر نکال کر دوسری جگہ منتقل کیا۔ اسی اثنا میں ایس پی او دیپک کھجوریہ بھی وہاں پہنچا اور دیگر تین ملزمان سے کہا کہ وہ بچی کو ابھی ختم نہ کریں کیونکہ وہ ایک بار پھر اس کا ریپ کرنا چاہتا ہے۔ دیپک کھجوریہ اور نابالغ ملزم نے بچی کو ایک بار پھر جنسی زیادتی کا شکار بنایا اور بالآخر بے دردی سے مار ڈالا۔ ایک دو دن لاش کو دیوی استھان میں رکھنے کے بعد نابالغ ملزم اور وشال جنگوترا نے لاش کو نزدیکی جنگل میں پھینک دیا۔

چارج شیٹ کے مطابق کرائم برانچ نے تحقیقات کے دوران 130 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کئے۔ اس کے مطابق سب انسپکٹر آنند دتا اور ہیڈ کانسٹیبل تلک راج نے شواہد مٹانے اور ملزمان کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔

14
فائل فوٹو
چارج شیٹ میں سانجی رام، اس کے بیٹے وشال جنگوترا، نابالغ بھتیجے، اس کے دوست پرویش کمار، ایس پی او دیپک کھجوریہ، ایس پی او سریندر کمار (سریندر نے دیپک کھجوریہ کے اشاروں پر کام کیا تھا)، سب انسپکٹر آنند دتا اور ہیڈ کانسٹیبل تلک راج کو ملزم قرار دیا گیا۔

نو اپریل 2018ء کو کٹھوعہ بار ایسوسی ایشن اور ینگ لائرز ایسوسی ایشن سے وابستہ درجنوں وکلاء نے چیف جوڈیشل مجسٹریٹ کٹھوعہ کی عدالت کے احاطے میں شدید ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے کرائم برانچ کے عہدیداروں کو آصفہ کیس کا چالان پیش کرنے سے روک دیا۔ وکلاء واقعہ کی تحقیقات مرکزی تفتیشی ایجنسی سی بی آئی کے حوالے کرنے کا مطالبہ کررہے تھے۔

1
فائل فوٹو
کرائم برانچ کے عہدیدار بعد ازاں سی جے ایم کی رہائش گاہ پر پہنچے اور وہیں پر واقعہ کے ملزمان کے خلاف چالان پیش کیا۔ پولیس نے وکلاء کی ہنگامہ آرائی کا سخت نوٹس لیتے ہوئے بار ایسوسی ایشن کٹھوعہ کے وکلاء کے خلاف آر پی سی کی دفعہ 353، دفعہ 147 اور دفعہ 341 کے تحت ایف آئی آر درج کی تھی۔ اگلے دن یعنی 11 اپریل کو جموں ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی اپیل پر جموں بند رہا۔ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے 'بند' کی کال کٹھوعہ عصمت دری و قتل کیس کی تحقیقات سی بی آئی کے حوالے کرنے کے مطالبے کو لیکر دی تھی۔

قبل ازیں فروری 2018ء میں کٹھوعہ کے ہیرا نگر میں اکثریتی طبقے سے وابستہ سینکڑوں افراد نے 'ہندو ایکتا منچ' نامی تنظیم کے بینر تلے ملزمان کے حق میں گگوال سے سب ضلع مجسٹریٹ ہیرا نگر کے دفتر تک ترنگا بردار جلوس نکالا تھا۔
کمسن بچی کے عصمت ریزی و قتل واقعہ کی وجہ سے لال سنگھ اور دوسرے ایک بھاجپا لیڈر چندر پرکاش گنگا کو وزارتی کونسل سے استعفیٰ دینا پڑا۔

7
فائل فوٹو
بی جے پی کے ان دو وزراء نے یکم مارچ 2018ء کو کٹھوعہ میں کمسن بچی کے عصمت دری و قتل کیس کے ملزمان کے حق میں ہندو ایکتا منچ کے بینر تلے منعقد ہونے والے ایک جلسہ میں شرکت کرکے سول و پولیس انتظامیہ کے عہدیداروں کو گرفتاریاں عمل میں نہ لانے کی ہدایات دی تھیں۔ کٹھوعہ میں جلسہ سے خطاب کے دوران ان وزراء نے ایک مخصوص برادری کے لوگوں کو یقین دلایا تھا کہ کیس کو سی بی آئی کے حوالے کیا جائے گا۔ وزارتی کونسل سے استعفیٰ دینے کے بعد لال سنگھ نے بی جے پی سے ناراض ہوکر راہ بغاوت اختیار کی تھی اور کٹھوعہ کیس کی سی بی آئی انکوائری کو لیکر احتجاجی ریلیوں اور جلسوں کا انعقاد کرنے لگے تھے۔ انہوں نے 22 جولائی 2018ء کو 'ڈوگرہ سوابھیمان سنگٹھن' نام سے نئی سیاسی جماعت لانچ کردی۔

کرائم برانچ کی طرف سے چارج شیٹ دائر کرنے کے بعد کیس کی ایک سماعت 16 اپریل 2018ء کو سیشن جج کٹھوعہ کی عدالت میں ہوئی تھی۔ جن ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا انہوں نے جج موصوف کے سامنے اپنے آپ کو بے گناہ بتاتے ہوئے نارکو ٹیسٹ (جھوٹ پکڑنے والا ٹیسٹ) کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم متاثرہ کی فیملی کی جانب سے کیس کو چندی گڈھ منتقل کرنے کے لئے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے اپنی پہلی سماعت میں کیس کی کٹھوعہ عدالت میں سماعت پر روک لگائی تھی۔

سپریم کورٹ نے 7 مئی 2018ء کو کٹھوعہ کیس کی جانچ سی بی آئی سے کرانے سے انکار کرتے ہوئے کیس کی سماعت کٹھوعہ سے پٹھان کوٹ کی عدالت میں منتقل کرنے کی ہدایت دی تھی۔ اُس وقت کے چیف جسٹس جسٹس دیپک مشرا کی صدارت والی بینچ نے یہ حکم سنایا تھا۔
سپریم کورٹ کے حکم نامے کی روشنی میں پرنسپل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج کٹھوعہ سنجیو گپتا نے 22 مئی 2018ء کو کٹھوعہ عصمت دری و قتل کیس کی پٹھان کوٹ منتقلی کے باضابطہ احکامات جاری کردیے تھے۔
سپریم کورٹ کے حکم پر 31 مئی کو ڈسٹرک اینڈ سیشنز جج ڈاکٹر تجویندر سنگھ کی عدالت میں کیس کی 'ان کیمرہ' اور روزانہ کی بنیاد پر سماعت شروع ہوئی۔ سماعت قریب ایک سال تک جاری رہنے کے بعد 3 جون کو اختتام پذیر ہوئی اور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج ڈاکٹر نے 10 جون کو فیصلہ سنایا۔

12
فائل فوٹو

پٹھان کوٹ عدالت میں ٹرائل کے دوران متاثرہ بچی کے والد نے گزشتہ برس نومبر میں اس کیس کی بدولت راتوں رات شہرت پانے والی خاتون وکیل دیپکا سنگھ راجاوت کو اس کیس سے فارغ کردیا۔ فارغ کئے جانے کی وجہ دیپکا راجاوت کی کیس میں مبینہ عدم دلچسپی بتائی گئی تھی۔ دیپکا راجاوت کا کیس سے ہٹانے جانے پر کہنا تھا کہ ان کے لیے پٹھان کوٹ عدالت میں ہر روز حاضر ہونا مشکل تھا۔

دیپکا راجاوت کو اس کیس کی بدولت غیرمعمولی شہرت ملی تھی اور انہیں گزشتہ ایک سال کے دوران متعدد ایوارڈ حاصل ہوئے۔ اس کے علاوہ انہیں متعدد کانفرنسوں میں شرکت کے لئے مدعو کیا گیا۔

کٹھوعہ جنسی زیادتی کیس میں بعض سیاسی رہنماؤں نے ملزمان کو بچانے کی کوششیں کی تھیں۔ 'ہندو ایکتا منچ' نامی تنظیم کی طرف سے ملزمان کے حق میں ترنگا جلوس نکالنے گئے تھے تو کٹھوعہ میں وکلاء کی جانب سے کرائم برانچ کو ملزمان کے خلاف چارج شیٹ دائر کرنے سے روکنے کی کوشش کی گئی تھی حتی کہ متاثرہ کنبے کا سماجی بائیکاٹ بھی کیا گیا تھا یہ سب واقعات قومی اور عالمی خبروں کی سرخیاں بنیں۔

5
فائل فوٹو
جانیں اس معاملے میں کب کیا ہوا؟

گزشتہ برس 12 جنوری کو ضلع کٹھوعہ کے رسانہ نامی گاؤں سے تعلق رکھنے والے محمد یوسف پجوال شکایت لے کر پولیس تھانہ ہیرا نگر پہنچے۔

3
فائل فوٹو
گجر بکروال طبقے سے تعلق رکھنے والے محمد یوسف نے اپنی شکایت میں کہا کہ اُن کی آٹھ سالہ بیٹی 10 جنوری 2018ء کو گھوڑے چرانے کے لیے نزدیکی جنگل گئی تھی۔ شام کے چار بجے گھوڑے واپس لوٹ آئے لیکن لڑکی واپس نہیں لوٹی۔
2
فائل فوٹو
پولیس تھانہ ہیرا نگر نے شکایت پر ایف آئی آر درج کرکے تحقیقات شروع کردی۔

17 جنوری 2018ء کو کمسن بچی کی لاش نزدیکی جنگل میں جھاڑیوں سے برآمد کی گئی۔
پولیس نے بچی کی لاش اپنے تحویل میں لے لیا اور ضلع ہسپتال کٹھوعہ میں پوسٹ مارٹم کے بعد آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے لاش لواحقین کے حوالے کر دی گئی۔
مقتولہ بچی کے لیے جب رسانہ میں قبر کھودنا شروع کیا گیا تو وہااکثریتی طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے اس مخالفت کی جس کے بعد بچی کو قریب دس کلو میٹر دور ایک گاؤں میں دفنایا گیا۔

13
فائل فوٹو

تحقیقات کے دوران پولیس تھانہ ہیرا نگر نے عصمت دری و قتل واقعہ کے منصوبہ ساز سانجی رام کے نابالغ بھتیجے کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا۔
پوچھ گچھ کے دوران نابالغ ملزم نے انکشاف کیا کہ وہ شراب، سگریٹ اور دیگر نشہ آور چیزوں کا عادی ہے۔ اسے اسکول سے اس وجہ سے نکالا جاچکا ہے کہ وہ لڑکیوں کے ساتھ بدتمیزی کرتا تھا۔

بائیس جنوری کو ریاستی حکومت نے کیس کی تحقیقات کرائم برانچ کے حوالے کردی۔ کرائم برانچ نے نابالغ ملزم کی جسمانی ریمانڈ حاصل کی اور اس کے انکشافات پر دیگر تمام ملزمان کو حراست میں لے لیا۔

8
فائل فوٹو

کرائم برانچ کی طرف سے عدالت میں دائر کی گئی چارج شیٹ کے مطابق جنوری 2018ء کے پہلے ہفتے میں سانجی رام نے رسانہ میں رہائش پذیر گجر بکروال کنبوں کو وہاں سے بھگانے کی منصوبہ بندی شروع کی۔
سانجی رام نے محکمہ پولیس کے ایس پی او دیپک کھجوریہ اور اپنے نابالغ بھتیجے کو آٹھ سالہ بچی کو اغوا کرنے کا کام سونپا۔ نابالغ ملزم نے یہ پورا منصوبہ اپنے قریبی دوست پرویش کمار عرف منو کے ساتھ شیئر کیا اور اسے منصوبے کا حصہ بنایا۔

4
فائل فوٹو

دس جنوری 2018ء کو سانجی رام کے بھتیجے (نابالغ ملزم) اور اس کے دوست پرویش کمار نے لڑکی کو اغوا کرکے منصوبے کے مطابق سانجی رام کے ذاتی مندر (دیوی استھان) پہنچایا۔ کمسن بچی کوزبردستی نشیلی ادویات کھلایا گیا جس کی وجہ سے بیہوش ہوگئی۔ سب سے پہلے نابالغ ملزم نے کمسن بچی کا ریپ کیا۔ پھر پرویش کمار اور ایس پی او دیپک کھجوریہ نے باری باری لڑکی کا ریپ کیا۔

9
فائل فوٹو

چارج شیٹ کے مطابق 11 جنوری کو نابالغ ملزم نے میرٹھ کے ایک کالج میں زیر تعلیم سانجی رام کے بیٹے وشال جنگوترا کو فون کیا اور کہا کہ وہ اپنی جنسی ہوس کی تسکین کے لئے رسانہ آسکتا ہے۔ وشال فوراً میرٹھ سے نکلا اور 12 جنوری کی صبح رسانہ پہنچا۔ اس دوران سانجی رام نے پولیس کی تحقیقاتی ٹیم کے اہلکاروں سب انسپکٹر آنند دتا اور ہیڈ کانسٹیبل تلک راج کو کمسن بچی کا کیس رفع دفع کرنے کے لئے پیسوں کی پیشکش کرڈالی جو انہوں نے قبول کی۔

10
فائل فوٹو

تیرہ جنوری کی صبح کلیدی ملزم سانجی رام اور دیگر کچھ ملزمان دیوی استھان پہنچے اور وہاں پوجا کی۔ سانجی رام وہاں سے نکلا تو وشال جنگوترا اور نابالغ ملزم نے کمسن بچی کا ریپ کیا۔ گھر میں سانجی رام نے نابالغ ملزم کو کہا کہ حقیقی مقصد حاصل کرنے کے لئے بچی کے قتل کرنے کا وقت آپہنچا ہے۔

6
فائل فوٹو
سانجی رام کی ہدایت پر نابالغ ملزم، پرویش کمار اور وشال جنگوترا نے بچی کو دیوی استھان سے باہر نکال کر دوسری جگہ منتقل کیا۔ اسی اثنا میں ایس پی او دیپک کھجوریہ بھی وہاں پہنچا اور دیگر تین ملزمان سے کہا کہ وہ بچی کو ابھی ختم نہ کریں کیونکہ وہ ایک بار پھر اس کا ریپ کرنا چاہتا ہے۔ دیپک کھجوریہ اور نابالغ ملزم نے بچی کو ایک بار پھر جنسی زیادتی کا شکار بنایا اور بالآخر بے دردی سے مار ڈالا۔ ایک دو دن لاش کو دیوی استھان میں رکھنے کے بعد نابالغ ملزم اور وشال جنگوترا نے لاش کو نزدیکی جنگل میں پھینک دیا۔

چارج شیٹ کے مطابق کرائم برانچ نے تحقیقات کے دوران 130 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کئے۔ اس کے مطابق سب انسپکٹر آنند دتا اور ہیڈ کانسٹیبل تلک راج نے شواہد مٹانے اور ملزمان کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔

14
فائل فوٹو
چارج شیٹ میں سانجی رام، اس کے بیٹے وشال جنگوترا، نابالغ بھتیجے، اس کے دوست پرویش کمار، ایس پی او دیپک کھجوریہ، ایس پی او سریندر کمار (سریندر نے دیپک کھجوریہ کے اشاروں پر کام کیا تھا)، سب انسپکٹر آنند دتا اور ہیڈ کانسٹیبل تلک راج کو ملزم قرار دیا گیا۔

نو اپریل 2018ء کو کٹھوعہ بار ایسوسی ایشن اور ینگ لائرز ایسوسی ایشن سے وابستہ درجنوں وکلاء نے چیف جوڈیشل مجسٹریٹ کٹھوعہ کی عدالت کے احاطے میں شدید ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے کرائم برانچ کے عہدیداروں کو آصفہ کیس کا چالان پیش کرنے سے روک دیا۔ وکلاء واقعہ کی تحقیقات مرکزی تفتیشی ایجنسی سی بی آئی کے حوالے کرنے کا مطالبہ کررہے تھے۔

1
فائل فوٹو
کرائم برانچ کے عہدیدار بعد ازاں سی جے ایم کی رہائش گاہ پر پہنچے اور وہیں پر واقعہ کے ملزمان کے خلاف چالان پیش کیا۔ پولیس نے وکلاء کی ہنگامہ آرائی کا سخت نوٹس لیتے ہوئے بار ایسوسی ایشن کٹھوعہ کے وکلاء کے خلاف آر پی سی کی دفعہ 353، دفعہ 147 اور دفعہ 341 کے تحت ایف آئی آر درج کی تھی۔ اگلے دن یعنی 11 اپریل کو جموں ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کی اپیل پر جموں بند رہا۔ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن نے 'بند' کی کال کٹھوعہ عصمت دری و قتل کیس کی تحقیقات سی بی آئی کے حوالے کرنے کے مطالبے کو لیکر دی تھی۔

قبل ازیں فروری 2018ء میں کٹھوعہ کے ہیرا نگر میں اکثریتی طبقے سے وابستہ سینکڑوں افراد نے 'ہندو ایکتا منچ' نامی تنظیم کے بینر تلے ملزمان کے حق میں گگوال سے سب ضلع مجسٹریٹ ہیرا نگر کے دفتر تک ترنگا بردار جلوس نکالا تھا۔
کمسن بچی کے عصمت ریزی و قتل واقعہ کی وجہ سے لال سنگھ اور دوسرے ایک بھاجپا لیڈر چندر پرکاش گنگا کو وزارتی کونسل سے استعفیٰ دینا پڑا۔

7
فائل فوٹو
بی جے پی کے ان دو وزراء نے یکم مارچ 2018ء کو کٹھوعہ میں کمسن بچی کے عصمت دری و قتل کیس کے ملزمان کے حق میں ہندو ایکتا منچ کے بینر تلے منعقد ہونے والے ایک جلسہ میں شرکت کرکے سول و پولیس انتظامیہ کے عہدیداروں کو گرفتاریاں عمل میں نہ لانے کی ہدایات دی تھیں۔ کٹھوعہ میں جلسہ سے خطاب کے دوران ان وزراء نے ایک مخصوص برادری کے لوگوں کو یقین دلایا تھا کہ کیس کو سی بی آئی کے حوالے کیا جائے گا۔ وزارتی کونسل سے استعفیٰ دینے کے بعد لال سنگھ نے بی جے پی سے ناراض ہوکر راہ بغاوت اختیار کی تھی اور کٹھوعہ کیس کی سی بی آئی انکوائری کو لیکر احتجاجی ریلیوں اور جلسوں کا انعقاد کرنے لگے تھے۔ انہوں نے 22 جولائی 2018ء کو 'ڈوگرہ سوابھیمان سنگٹھن' نام سے نئی سیاسی جماعت لانچ کردی۔

کرائم برانچ کی طرف سے چارج شیٹ دائر کرنے کے بعد کیس کی ایک سماعت 16 اپریل 2018ء کو سیشن جج کٹھوعہ کی عدالت میں ہوئی تھی۔ جن ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا انہوں نے جج موصوف کے سامنے اپنے آپ کو بے گناہ بتاتے ہوئے نارکو ٹیسٹ (جھوٹ پکڑنے والا ٹیسٹ) کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم متاثرہ کی فیملی کی جانب سے کیس کو چندی گڈھ منتقل کرنے کے لئے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے اپنی پہلی سماعت میں کیس کی کٹھوعہ عدالت میں سماعت پر روک لگائی تھی۔

سپریم کورٹ نے 7 مئی 2018ء کو کٹھوعہ کیس کی جانچ سی بی آئی سے کرانے سے انکار کرتے ہوئے کیس کی سماعت کٹھوعہ سے پٹھان کوٹ کی عدالت میں منتقل کرنے کی ہدایت دی تھی۔ اُس وقت کے چیف جسٹس جسٹس دیپک مشرا کی صدارت والی بینچ نے یہ حکم سنایا تھا۔
سپریم کورٹ کے حکم نامے کی روشنی میں پرنسپل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج کٹھوعہ سنجیو گپتا نے 22 مئی 2018ء کو کٹھوعہ عصمت دری و قتل کیس کی پٹھان کوٹ منتقلی کے باضابطہ احکامات جاری کردیے تھے۔
سپریم کورٹ کے حکم پر 31 مئی کو ڈسٹرک اینڈ سیشنز جج ڈاکٹر تجویندر سنگھ کی عدالت میں کیس کی 'ان کیمرہ' اور روزانہ کی بنیاد پر سماعت شروع ہوئی۔ سماعت قریب ایک سال تک جاری رہنے کے بعد 3 جون کو اختتام پذیر ہوئی اور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج ڈاکٹر نے 10 جون کو فیصلہ سنایا۔

12
فائل فوٹو

پٹھان کوٹ عدالت میں ٹرائل کے دوران متاثرہ بچی کے والد نے گزشتہ برس نومبر میں اس کیس کی بدولت راتوں رات شہرت پانے والی خاتون وکیل دیپکا سنگھ راجاوت کو اس کیس سے فارغ کردیا۔ فارغ کئے جانے کی وجہ دیپکا راجاوت کی کیس میں مبینہ عدم دلچسپی بتائی گئی تھی۔ دیپکا راجاوت کا کیس سے ہٹانے جانے پر کہنا تھا کہ ان کے لیے پٹھان کوٹ عدالت میں ہر روز حاضر ہونا مشکل تھا۔

دیپکا راجاوت کو اس کیس کی بدولت غیرمعمولی شہرت ملی تھی اور انہیں گزشتہ ایک سال کے دوران متعدد ایوارڈ حاصل ہوئے۔ اس کے علاوہ انہیں متعدد کانفرنسوں میں شرکت کے لئے مدعو کیا گیا۔

Intro:Body:Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.