کٹھوعہ جنسی زیادتی کیس میں بعض سیاسی رہنماؤں نے ملزمان کو بچانے کی کوششیں کی تھیں۔ 'ہندو ایکتا منچ' نامی تنظیم کی طرف سے ملزمان کے حق میں ترنگا جلوس نکالنے گئے تھے تو کٹھوعہ میں وکلاء کی جانب سے کرائم برانچ کو ملزمان کے خلاف چارج شیٹ دائر کرنے سے روکنے کی کوشش کی گئی تھی حتی کہ متاثرہ کنبے کا سماجی بائیکاٹ بھی کیا گیا تھا یہ سب واقعات قومی اور عالمی خبروں کی سرخیاں بنیں۔
گزشتہ برس 12 جنوری کو ضلع کٹھوعہ کے رسانہ نامی گاؤں سے تعلق رکھنے والے محمد یوسف پجوال شکایت لے کر پولیس تھانہ ہیرا نگر پہنچے۔
17 جنوری 2018ء کو کمسن بچی کی لاش نزدیکی جنگل میں جھاڑیوں سے برآمد کی گئی۔
پولیس نے بچی کی لاش اپنے تحویل میں لے لیا اور ضلع ہسپتال کٹھوعہ میں پوسٹ مارٹم کے بعد آخری رسومات کی ادائیگی کے لیے لاش لواحقین کے حوالے کر دی گئی۔
مقتولہ بچی کے لیے جب رسانہ میں قبر کھودنا شروع کیا گیا تو وہااکثریتی طبقے سے تعلق رکھنے والے افراد نے اس مخالفت کی جس کے بعد بچی کو قریب دس کلو میٹر دور ایک گاؤں میں دفنایا گیا۔
![13](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/img-20190610-wa0015_1006newsroom_1560179055_255.jpg)
تحقیقات کے دوران پولیس تھانہ ہیرا نگر نے عصمت دری و قتل واقعہ کے منصوبہ ساز سانجی رام کے نابالغ بھتیجے کو پوچھ گچھ کے لیے حراست میں لیا۔
پوچھ گچھ کے دوران نابالغ ملزم نے انکشاف کیا کہ وہ شراب، سگریٹ اور دیگر نشہ آور چیزوں کا عادی ہے۔ اسے اسکول سے اس وجہ سے نکالا جاچکا ہے کہ وہ لڑکیوں کے ساتھ بدتمیزی کرتا تھا۔
بائیس جنوری کو ریاستی حکومت نے کیس کی تحقیقات کرائم برانچ کے حوالے کردی۔ کرائم برانچ نے نابالغ ملزم کی جسمانی ریمانڈ حاصل کی اور اس کے انکشافات پر دیگر تمام ملزمان کو حراست میں لے لیا۔
![8](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/kathua_rape_case_1006newsroom_1560179015_378.jpeg)
کرائم برانچ کی طرف سے عدالت میں دائر کی گئی چارج شیٹ کے مطابق جنوری 2018ء کے پہلے ہفتے میں سانجی رام نے رسانہ میں رہائش پذیر گجر بکروال کنبوں کو وہاں سے بھگانے کی منصوبہ بندی شروع کی۔
سانجی رام نے محکمہ پولیس کے ایس پی او دیپک کھجوریہ اور اپنے نابالغ بھتیجے کو آٹھ سالہ بچی کو اغوا کرنے کا کام سونپا۔ نابالغ ملزم نے یہ پورا منصوبہ اپنے قریبی دوست پرویش کمار عرف منو کے ساتھ شیئر کیا اور اسے منصوبے کا حصہ بنایا۔
دس جنوری 2018ء کو سانجی رام کے بھتیجے (نابالغ ملزم) اور اس کے دوست پرویش کمار نے لڑکی کو اغوا کرکے منصوبے کے مطابق سانجی رام کے ذاتی مندر (دیوی استھان) پہنچایا۔ کمسن بچی کوزبردستی نشیلی ادویات کھلایا گیا جس کی وجہ سے بیہوش ہوگئی۔ سب سے پہلے نابالغ ملزم نے کمسن بچی کا ریپ کیا۔ پھر پرویش کمار اور ایس پی او دیپک کھجوریہ نے باری باری لڑکی کا ریپ کیا۔
![9](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/kathua-rape-case-protests-pixellated_social_pti_1006newsroom_1560179015_989.jpg)
چارج شیٹ کے مطابق 11 جنوری کو نابالغ ملزم نے میرٹھ کے ایک کالج میں زیر تعلیم سانجی رام کے بیٹے وشال جنگوترا کو فون کیا اور کہا کہ وہ اپنی جنسی ہوس کی تسکین کے لئے رسانہ آسکتا ہے۔ وشال فوراً میرٹھ سے نکلا اور 12 جنوری کی صبح رسانہ پہنچا۔ اس دوران سانجی رام نے پولیس کی تحقیقاتی ٹیم کے اہلکاروں سب انسپکٹر آنند دتا اور ہیڈ کانسٹیبل تلک راج کو کمسن بچی کا کیس رفع دفع کرنے کے لئے پیسوں کی پیشکش کرڈالی جو انہوں نے قبول کی۔
![10](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/protest-against-kathua-rape-and-murder-case_1006newsroom_1560179015_1045.jpg)
تیرہ جنوری کی صبح کلیدی ملزم سانجی رام اور دیگر کچھ ملزمان دیوی استھان پہنچے اور وہاں پوجا کی۔ سانجی رام وہاں سے نکلا تو وشال جنگوترا اور نابالغ ملزم نے کمسن بچی کا ریپ کیا۔ گھر میں سانجی رام نے نابالغ ملزم کو کہا کہ حقیقی مقصد حاصل کرنے کے لئے بچی کے قتل کرنے کا وقت آپہنچا ہے۔
![6](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/gettyimages-948242360_1006newsroom_1560179015_662.jpg)
چارج شیٹ کے مطابق کرائم برانچ نے تحقیقات کے دوران 130 گواہوں کے بیانات ریکارڈ کئے۔ اس کے مطابق سب انسپکٹر آنند دتا اور ہیڈ کانسٹیبل تلک راج نے شواہد مٹانے اور ملزمان کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی تھی۔
![14](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/3524303_407_3524303_1560180204823.png)
نو اپریل 2018ء کو کٹھوعہ بار ایسوسی ایشن اور ینگ لائرز ایسوسی ایشن سے وابستہ درجنوں وکلاء نے چیف جوڈیشل مجسٹریٹ کٹھوعہ کی عدالت کے احاطے میں شدید ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے کرائم برانچ کے عہدیداروں کو آصفہ کیس کا چالان پیش کرنے سے روک دیا۔ وکلاء واقعہ کی تحقیقات مرکزی تفتیشی ایجنسی سی بی آئی کے حوالے کرنے کا مطالبہ کررہے تھے۔
قبل ازیں فروری 2018ء میں کٹھوعہ کے ہیرا نگر میں اکثریتی طبقے سے وابستہ سینکڑوں افراد نے 'ہندو ایکتا منچ' نامی تنظیم کے بینر تلے ملزمان کے حق میں گگوال سے سب ضلع مجسٹریٹ ہیرا نگر کے دفتر تک ترنگا بردار جلوس نکالا تھا۔
کمسن بچی کے عصمت ریزی و قتل واقعہ کی وجہ سے لال سنگھ اور دوسرے ایک بھاجپا لیڈر چندر پرکاش گنگا کو وزارتی کونسل سے استعفیٰ دینا پڑا۔
![7](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/kathua-rape12_0_1006newsroom_1560179015_426.jpg)
کرائم برانچ کی طرف سے چارج شیٹ دائر کرنے کے بعد کیس کی ایک سماعت 16 اپریل 2018ء کو سیشن جج کٹھوعہ کی عدالت میں ہوئی تھی۔ جن ملزمان کو عدالت میں پیش کیا گیا تھا انہوں نے جج موصوف کے سامنے اپنے آپ کو بے گناہ بتاتے ہوئے نارکو ٹیسٹ (جھوٹ پکڑنے والا ٹیسٹ) کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔ تاہم متاثرہ کی فیملی کی جانب سے کیس کو چندی گڈھ منتقل کرنے کے لئے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا تھا۔ عدالت عظمیٰ نے اپنی پہلی سماعت میں کیس کی کٹھوعہ عدالت میں سماعت پر روک لگائی تھی۔
سپریم کورٹ نے 7 مئی 2018ء کو کٹھوعہ کیس کی جانچ سی بی آئی سے کرانے سے انکار کرتے ہوئے کیس کی سماعت کٹھوعہ سے پٹھان کوٹ کی عدالت میں منتقل کرنے کی ہدایت دی تھی۔ اُس وقت کے چیف جسٹس جسٹس دیپک مشرا کی صدارت والی بینچ نے یہ حکم سنایا تھا۔
سپریم کورٹ کے حکم نامے کی روشنی میں پرنسپل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج کٹھوعہ سنجیو گپتا نے 22 مئی 2018ء کو کٹھوعہ عصمت دری و قتل کیس کی پٹھان کوٹ منتقلی کے باضابطہ احکامات جاری کردیے تھے۔
سپریم کورٹ کے حکم پر 31 مئی کو ڈسٹرک اینڈ سیشنز جج ڈاکٹر تجویندر سنگھ کی عدالت میں کیس کی 'ان کیمرہ' اور روزانہ کی بنیاد پر سماعت شروع ہوئی۔ سماعت قریب ایک سال تک جاری رہنے کے بعد 3 جون کو اختتام پذیر ہوئی اور ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج ڈاکٹر نے 10 جون کو فیصلہ سنایا۔
![12](https://etvbharatimages.akamaized.net/etvbharat/prod-images/3521954_kut_1006newsroom_1560179055_136.jpg)
پٹھان کوٹ عدالت میں ٹرائل کے دوران متاثرہ بچی کے والد نے گزشتہ برس نومبر میں اس کیس کی بدولت راتوں رات شہرت پانے والی خاتون وکیل دیپکا سنگھ راجاوت کو اس کیس سے فارغ کردیا۔ فارغ کئے جانے کی وجہ دیپکا راجاوت کی کیس میں مبینہ عدم دلچسپی بتائی گئی تھی۔ دیپکا راجاوت کا کیس سے ہٹانے جانے پر کہنا تھا کہ ان کے لیے پٹھان کوٹ عدالت میں ہر روز حاضر ہونا مشکل تھا۔
دیپکا راجاوت کو اس کیس کی بدولت غیرمعمولی شہرت ملی تھی اور انہیں گزشتہ ایک سال کے دوران متعدد ایوارڈ حاصل ہوئے۔ اس کے علاوہ انہیں متعدد کانفرنسوں میں شرکت کے لئے مدعو کیا گیا۔