کرناٹک کے علاقے گلبرگہ، بیدر، یادگیر، بلاری، رائچور، کوپل وغیرہ ریاست حیدرآباد کا حصہ تھے جسے 17 ستمبر 1948 کو بھارت میں ضم کردیا گیا۔
ہر سال 17 ستمبر کو سقوط حیدرآباد کی یاد میں کرناٹک کے مختلف مقامات کئی پروگرامس منعقد کئے جاتے ہیں۔ اس موقع پر گلبرگہ کے شہرت یافتہ آرٹسٹ و فوٹو گرافر محمد ایاز الدین پٹیل نے کہا کہ عوام کےلیے نظام کی جانب سے انجام دیئے گئے بے مثال کارناموں کو کبھی بھی فراموش نہیں کیا جاسکتا۔ انہوں نے کہا کہ میر عثمان علی خان بہادر نے ریاست حیدرآباد کی ترقی کےلیے کئی بے مثال کارنامے انجام دیئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ گلبرگہ میں ایوان شاہی گیسٹ ہاوز کی تعمیر، پارچہ شازی کے لیے ایم ایس کاٹن مل کا قیام جو اس وقت بھارت کی دوسری سب سے بڑی کاٹن مل تھی، صوبہ داری دفتر کا قیام، گورنمنٹ کالج، محبوب گلشن گارڈن، محبوب ساگر، سنٹرل لائبریری، ریلوے اسٹیشن، پولیس اسٹیشن ندیوں پر پلوں کی تعمیر کے علاوہ نظام کی جانب سے کئی فلاحی کام انجام دیئے گئے تھے جس سے آج بھی لوگ مستفید ہوتے ہیں۔
سماجی کارکن لکشمن دستی نے بتایا آصفجاہی حکومت نے کبھی بھی فرقہ پرستی پر مبنی حکومت نہیں کی بلکہ ان کے دور حکومت میں سب ہی مذہب کے ماننے والے مل جل کر رہا کرتے تھے اور نظام حکومت میں کئی غیرمسلم افراد اہم عہدوں پر فائز تھے۔ انہوں نے کہا کہ نظام نے ہمیشہ ہندو اور مسلمانوں کو اپنی دونوں آنکھوں سے تعبیر کیا تھا۔
سی پی یم کے رکن ماروتی مان پاڈے نے کہا کہ سقوط حیدرآباد کے دوران ہزاروں مسلمانوں کو قتل کردیا گیا جبکہ اس دن جشن منانا فرقہ پرستی کو بڑھاوا دینے کے مترادف ہوگا۔
سوشیل ورکر محمد معراج الدین نے بتایا کہ بی جے پی ایک سازش کے تحت حیدرآباد کرناٹک کے نام کو بدل کر کلیان کرناٹک کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کو آزادی 15 اگست کو ملی تھی تاہم 17 ستمبر کو جشن منانا یا پرچم لہرانہ مناسب نہیں ہے۔