عدالتِ عظمیٰ کی سینیئر وکیل میناکشی اروڑہ نے منگل کو کرناٹک حکومت کی جانب سے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی عائد کئے جانے کے فیصلے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ اس حوالے سے کئی عرضداشتیں سماعت کی طلب گار ہیں۔ چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا نے انہیں دو دن انتظار کرنے کے لیے کہا کہ وہ جلد ہی اس کی فہرست بنائیں گے۔ مختلف درخواست گزاروں نے کرناٹک ہائی کورٹ کے حکم کو چیلنج کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے جس میں کرناٹک حکومت کے اس حکم کو برقرار رکھا گیا ہے جس میں اسکولوں اور کالجوں کے یکساں قوانین کو سختی سے نافذ کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
سُپریم کورٹ میں داخل اپیلوں میں سے ایک میں الزام لگایا گیا ہے کہ 'سرکاری حکام کے سوتیلے رویے نے طلباء کو اپنے عقیدے پر عمل کرنے سے روکا ہے اور اس کے نتیجے میں امن و امان کی ناپسندیدہ صورتحال پیدا ہوئی ہے۔ اپیل میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ صورتحال کی سنگینی کے ساتھ ساتھ آئین ہند کے آرٹیکل 25 کے تحت درج ضروری مذہبی طریقوں کے بنیادی پہلو کو سمجھنے سے قاصر ہے۔
اس نے مزید کہا کہ حجاب یا سر پر اسکارف پہننا ایک ایسا عمل ہے جو اسلام کے عمل کے لیے ضروری ہے۔ 'چیف جسٹس ریتو راج اوستھی، جسٹس کرشنا ایس دکشت اور جسٹس جے ایم خازی (قاضی) پر مشتمل کرناٹک ہائی کورٹ کی بینچ نے کہا تھا کہ یونیفارم کا معاملہ ایک معقول پابندی ہے جس پر طلباء اعتراض نہیں کر سکتے اور تعلیم میں حجاب پر پابندی کو چیلنج کرنے والی مختلف درخواستوں کو خارج کر دیا۔ اداروں کا کہنا ہے کہ وہ میرٹ کے بغیر ہیں۔
واضح رہے کہ 'حجاب کا معاملہ رواں برس جنوری میں اس وقت شروع ہوا تھا جب اُڈوپی کے گورنمنٹ پی یو کالج نے باحجاب چھ لڑکیوں کو کیمپس میں داخل ہونے سے روک دیا تھا۔ اس کے بعد لڑکیاں داخلہ نہ ملنے پر کالج کے باہر احتجاج پر بیٹھ گئیں۔ اس کے بعد اُڈوپی کے کئی کالجوں کے لڑکوں نے بھگوا اسکارف پہن کر کلاس میں جانا شروع کیا۔ یہ احتجاج ریاست کے دیگر حصوں میں بھی پھیل گیا اور ساتھ ہی کرناٹک میں کئی مقامات پر احتجاج اور مظاہرے ہوئے۔
اس کے نتیجے میں کرناٹک حکومت نے کہا کہ تمام طالب علموں کو یونیفارم کی پابندی کرنی چاہیے اور جب تک ایک ماہر کمیٹی اس مسئلے پر فیصلہ نہیں کر لیتی، حجاب اور بھگوا اسکارف دونوں پر پابندی لگا دی ہے۔ 5 فروری کو پری یونیورسٹی ایجوکیشن بورڈ نے ایک سرکیولر جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ طلباء صرف وہی یونیفارم پہن سکتے ہیں جسے اسکول انتظامیہ نے منظور کیا ہے اور کالجوں میں کسی اور مذہبی لباس کی اجازت نہیں ہوگی۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ اگر انتظامی کمیٹیوں کی جانب سے یونیفارم کا تعین نہیں کیا جاتا ہے تو طلباء کو چاہیے کہ وہ ایسے لباس پہنیں جو مساوات اور اتحاد کے خیال کے مطابق ہوں اور سماجی نظم و ضبط میں خلل نہ ڈالیں۔ کچھ لڑکیوں نے تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے کی اجازت مانگنے کے لیے کرناٹک ہائی کورٹ میں حکومت کے حکم کے خلاف درخواستوں کی ایک کھیپ داخل کی تھی۔ 10 فروری کو ہائی کورٹ نے ایک عبوری حکم جاری کیا جس میں کہا گیا تھا کہ جب تک عدالت حتمی حکم جاری نہیں کرتی طلبہ کو کلاسوں میں کوئی مذہبی لباس نہیں پہننا چاہیے۔