ای ٹی وی بھارت کے جانب سے یہاں کے عوام اور اس مل کے مزدوروں سے اس مل کی بندہونے کی وجوہات جانے کی کوشش کی تو سماجی کارکن محمد معراج دین نے کہا کہ ایم ایس کے مل دکن کی پہلی قدیم انڈسٹری تھی۔ 1884 میں نظام عنایت علی خان اپنے بیٹے محبوب علی خان کے نام سے اس مل کو شروع کیا تھا۔
اس سے یہاں کے عوام کا روزگار منسلک تھا۔ اس مل سے ہزاروں مزدوروں کا روزگار منسلک تھا، اس مل میں تیار کردہ کپڑا بیرونی ممالک تک جاتا تھا۔ ملک کی آزادی کے بعد یہ مل نیشنل ٹیکشٹائیل کارپوریشن شامل ہوگیا اور اس میل کو ٹریننگ سینٹر بنایا گیا، لیکن بعد میں اس مل کے افسران کی لاپرواہی سے نقصان ہونا شروع ہوا۔
سماجی کارکن لکشمن دستی نے کہا کہ اس مل کے مزدور یونین اور حکومت کے درمیان احتجاج مخالفت شروع ہوتی رہی اور اس مل کو آخر کار بند کر دیا گیا جس سے کئی افراد بے روزگار ہوگئے۔
اس مل کی 125 ایکٹر زمین تھی، اگر حکومت چاہتی تو اس زمین کو انڈسٹری بناسکتی تھی۔
سیاسی اختلافات کی وجہ سے آج یہ مل پوری طرح ختم ہوگئی ہے، اب اس جگہ پر آبادی بس گئی ہے۔ صرف اس مل کا ایک خالی حصہ موجود ہے۔
اس میل کے بزرگ مزدور بسنا نے کہا کہ 25 سال تک اس مل میں نوکر کی ہے۔ ان کو اور ان کے 8 سو ساتھی کو کام سے نکالا گیا تھا۔
مل مزدور سدلنگا میل نے کہا کہ اس مل میں ٹیکنیشن کام کر تے تھے۔ یہاں پر جاپان اور دیگر ممالک کے مشین موجود تھی۔
محمد رفیق یہاں کپڑے بنانے کا کام کر تے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں سے روس کے لئے کپڑا جاتا تھا۔
اس مل کو ٹریننگ سینڑ بنانے کی وجہ سے روزانہ 50 ہزار کپڑا ایک وقت خراب کیاجاتا تھا، جس کی وجہ سے اس مل کو نقصان اٹھانا پڑا اور 2002 میں یہ میل پوری طرح سے بند ہوگئی۔
مزید پڑھیں:
عازمین حج و عمرہ رہنما ہدایات کا انتظار کریں
اس مل میں کام کر چکے مزدوروں کو پی ایف کی رقم ہر ماہ دوسو سے پانچ سو رپیے ملی رہی ہے، اس سے ان کے لئے زندگی گزارنے کے لئے نا کافی ہے۔