بنگلور: ریاست کرناٹک میں برسر اقتدار بھارتیہ جنتا پارٹی نے اپوزیشن کی سخت مخالفت کے باوجود انسداد مویشی ذبیحہ قانون کو نافذ کردیا ہے جس کے تحت گائے، بیل، کھلگا وغیرہ کی ذبیحہ پر مکمل پابندی عائد ہے۔ تاہم 13 برس سے زائد عمر کی بھینس کی ذبیحہ پر پابندی نہیں ہے۔
گزشتہ تقریباً 2 برسوں سے کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے اسکولز بند رہے۔ ایک بڑی آبادی کا روزگار متاثر ہوا، جس کے نتیجے میں ایسے غریب طبقے جو بیل کے کوشت سے توانائی حاصل کرتے تھے ان کے بچے غذائی قلت کے شکار ہورہے ہیں۔ کیوں کہ ریاست میں اب بیل کے ذبیحہ پر بھی پابندی عائد ہے۔اس معاملے پر ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے پبلک ہیلتھ ایکسپرٹ ڈاکٹر سلویہ نے بتایا کہ گائے یا بیل کا گوشت نہ سرف سستا بلکہ کافی کفایتی ہے، جس میں وہ تمام غذائی موجود ہیں جو کہ بچوں کی پرورش و نشوو نمائی کے لیے بے حد فائدہ مند ہیں۔ انہوں نے کہاکہ چونکہ اب حکومت کی جانب سے بیل کے گوشت پر بھی پابندی عائد ہے تو غریب طبقے کے لوگ اس غذا سے بھی محروم ہیں اور صحت سے بھرپور غذائی خوراک کی کمی کی وجہ سے صحت کے سنگین مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔
بچے غذائی قلت کے شکار ہورہے ہیں ڈاکٹر سلویہ کا کہنا ہے کہ ملک کا دستور تمامی باشندوں کو ان کے کھانا چننے کی آزادی دیتا ہے، کہ وہ کیا کھائیں اور کیا نہ کھائیں اور اس معاملے میں حکومت کی دخل اندازی نہ صرف غیر دستور ہے بلکہ اس سے عوام کی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔'
ڈاکٹر سلویہ نے کہاکہ' حکومت کو چاہیے کہ وہ مذکورہ مسئلے کو مذہبی آئنے سے نہ دیکھے بلکہ سائنسی اعتبار سے غور کرے کہ بیف کس قدر مفید ہے اور اس کے کفایتی ہونے سے غریب بھی اسے کھائیں اور توانائی حاصل کریں۔'
انسداد مویشی ذبیحہ ایکٹ غذائی مسائل کو جنم دے سکتی ہے: ڈاکٹر سلویہ ڈاکٹر سلویہ نے حکومت کرناٹک سے اپیل کی کہ حکومت قوانین ایسے بنائے جو سانسی اور منتقی ہوں نہ کہ ایسے جو عوام پر ظلم ڈھانے کے مترادف ہوں'۔ڈاکٹر سلویا کہتی ہین کہ دال، چاول وغیرہ جیسے مادی غذا سے کام کرنے کے لیے جسم میں طاقت ضرور پیدا ہوسکتی ہے لیکن ایسی غذا سے بڑھتے بچوں میں نشونمائی ممکن نہیں ہے۔'