ویسے تو بذات خود جھارکھنڈ میں یہ موذی مرض کورونا کم ہے اور راحت کی بات یہ ہے کہ سنتھال پرگنہ جس میں گڈا ضلع بھی آتا ہے کورونا کا کوئی کیس نہیں ہے۔ اس کے باوجود پولیس کی اتنی سختی سے مقامی لوگ ناراضگی بھی ظاہر کر رہے ہیں۔
مقامی لوگوں کا کہنا ہےکہ اچانک لاک ڈاؤن کے بعد سے پھنسے بہت سے مزدور کئی دنوں تک پیدل سفر کرتے ہوئے اپنے گھر پہنچے ہیں اور اس علاقے میں بھی پٹنہ سے کئی مزدور پیدل چل کر آئے ہیں۔
یہاں کے لوگوں کو شکایت اس بات کی ہے کہ حکومت کی طرف سے راشن کارڈ والوں کو تو راشن دے رہی ہےلیکن 25 فیصد سے زیادہ لوگ ہیں جن کے پاس راشن کارڈ نہیں ہے وہ بھوکے مر رہے ہیں۔
حکوت دعویٰ کر رہی ہے کسانوں اور جن دھن یوجنا والے کھاتوں میں پانچ پانچ سو روپئے منتقل کر دئےگئے ہیں، لیکن مقامی لوگوں کے مطابق کچھ کے کھاتے میں پانچ پانچ سو روپئے آئے ہیں۔ لیکن بہت سے لوگوں کے کھاتے میں وہ پیسے بھی نہیں آئے ہیں اور مہنگائی کے اس دور میں پانچ سو روپیے کی بساط ہی کیا ہے۔
آپ کو بتا دیں کہ جھارکھنڈ میں کورونا مریضوں کی تعداد 19 ہے اور اب تک یہاں اس موذی مرض سے دو لوگوں کی موت ہوئی ہے۔
لیکن کچھ لوگوں کو شک ہے کہ یہ تعداد اس لئے کم ہے کیونکہ یہاں جانچ کی سہولت ہی نہیں ہے۔ گڈا ضلع کے دیہی علاقے کے لوگوں کو صرف سیمپل لینے کی سہولت 35-40 کیلو میٹر دور ہے اور وہ بھی قبائلی لوگ اتنے بیدار مغض نہیں ہوتے ہیں۔