جموں: جموں وکشمیر نیشنل کانفرنس کے صدر فاروق عبداللہ نے پیر کے روز کہا کہ سال 1990 کے بعد پُرآشوب دور میں جموں وکشمیر کا تمام ڈھانچہ تہس نہس ہوگیا تھا، جمہوریت اور ورک کلچر نام کی کوئی چیز نہیں تھی، بیشتر پُل، سرکاری عمارتیں، aسکول اور دیگر تعلیمی ادارے خاکستر ہوگئے تھے اور لوگ خوف و ہراس کے سائے تلے زندگی گزار رہے تھے۔
انہوں نے کہا 1996میں کوئی الیکشن لڑنے کیلئے تیار نہیں تھا لیکن ہم نے اُس وقت آگ میں کود کر جموں وکشمیر کے عوام کو اس پُر آشوب دور سے نکالنے کی ٹھان لی اور اس کیلئے ہمارے ہزاروں کارکنوں، عہدیداروں اور لیڈران نے اپنی جان کی قربانیاں پیش کیں۔ان باتوں کا اظہار موصوف نے نگروٹہ میں حلقہ انتخاب بورن کے یک روزہ عظیم الشان کنونشن سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ نیشنل کانفرنس نے 1996 میں ایک ایسے وقت میں جموں وکشمیر کی تعمیر نو کا کام شروع کیا ، جب یہاں نہ کوئی پُل بچا تھا نہ کوئی سرکاری ڈھانچہ، نہ کوئی سڑک قابل آمدو رفت تھی اور نہ ہی کوئی ادارہ قابل کار تھا۔
انہوں نے کہا کہ'ہم نے نہ صرف آہستہ آہستہ ماحول ٹھیک کیا بلکہ ہزاروں کی تعداد میں اسکول، کالج، پُل اور سڑکیں تعمیر کیں اور 6 سالہ دور میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ سرکاری ملازمتیں فراہم کیں۔ دوردراز لوگوں کیلئے رہبر تعلیم ،رہبر زراعت اور موقعے پر ہی ڈی جی بھرتی جیسی سکیمیں متعارف کرائیں اور پُرآشوب ریاست کا نظام پھر سے پٹری پر لایا۔
ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے کہا کہ آج جو لوگ یہاں امن و امان اور تعمیر و ترقی کے دعوے کررہے ہیں، وہ محض زبانی جمع خرچ سے لوگوں کو گمراہ کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔نیشنل کانفرنس نے جموں وکشمیر کی ترقی اور عوام کیلئے جتنا فلاحی کام کیا ہے، اُس کا کوئی ثانی نہیں ہوسکتا۔
انہوں نے کہا کہ مرحوم شیخ محمد عبداللہ کی وجہ سے ہی جموں وکشمیر ہندوستان کا حصہ بنا اور تاریخ اس کی گواہ ہے۔انہوں نے کہاکہ ہم ہندوستانی تھے اور ہندوستانی ہو کر مریں گے ۔فاروق عبداللہ نے کہا کہ جموں وکشمیر کے لوگوں کو اس وقت گونا گوں مشکلات کاسامنا کرنا پڑرہا ہے۔ان کے مطابق جموں وکشمیر کے تعلیم یافتہ نوجوان در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔
فاروق عبداللہ نے مزید بتایا کہ وہ بھگوان رام کی بات کرتے ہیں لیکن میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ رام سب کا ہیں مسلمانوں کا بھی اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کا بھی۔انہوں نے مزید بتایا ہندوستان تب ترقی کرئے گا جب سبھی مذاہب کے ماننے والوں کو ساتھ لے کر چلیں گے۔
مزید پڑھیں:
دفعہ 370 کے متعلق گمراہ کُن پروپیگنڈا پھیلانے والوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا کہ اسی دفعہ کی بدولت یہاں کے عوام کو زمینوں پر مالکانہ حقوق ملے اور مفت تعلیم جیسے مراعات حاصل ہوئے۔ دفعہ370 مہاراجہ ہری سنگھ کی میراث تھی ، جسے غیر جمہوری، غیر آئینی اور یکطرفہ طور پر چھین لیا گیا۔ دفعہ370 کے خاتمے کا سب زیادہ خمیازہ آج جموں کے عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔
(یو این آئی)