این این وہرا نے یہ بات جموں و کشمیر میں گذشتہ کئی سالوں میں ہڑتال اور بندشوں کا ذکر کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے کہا کہ وادی کشمیر کی غیر یقینی صورتحال کے نتیجے میں وہاں کے تمام طلباء کو تعلیمی نقصانات کا سامنا ہے۔
'تھنک ٹینک آبزرور ریسرچ فاؤنڈیشن' کے زیر اہتمام 'دفعہ 370 کے بعد کشمیر' کے موضوع پر گفتگو کے دوران این این وہرا نے ان باتوں کا اظہار کیا ۔
بتادیں کہ این این وہرا سنہ 2008 سے 2018 تک جموں و کشمیر کے گورنر تھے۔
وہرا نے کہا کہ' گذشتہ 20 برسوں کے دوران وادی کشمیر میں جس شعبے کا سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے وہ وہاں کے بچوں کی تعلیم کا نقصان ہے۔ ہمارے پاس وہاں ایک زرعی یونیورسٹی ٓ، ریاستی یونیورسٹی، مرکزی یونیورسٹی ، اور ٹیکنالوجی کا ایک قومی انسٹی ٹیوٹ ہے۔ میں آپ کو تعلیمی نقصان کی حد تک نہیں بتا سکتا۔'
ایک نیوز رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہ این آئی ٹی کے تقریبا 350 طلبا سرینگر سے چلے گئے تھے، انہوں نے کہا اس سے ساکھ خراب ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر سول انتظامیہ وادی کے مقامی ملازمین کے رہنے اور کام کرنے اور ان کے بچوں کو اسکول جانے اور واپس آنے کے لیے 90 فیصد مخصوص و محفوظ ماحول کی ضمانت نہیں دے سکتی ہے۔ تو پھر وہاں کے حکام کے لیے یہ بہت مشکل بھرا اور چیلنجنگ ہے۔
واضح رہے کہ 5 اگست سے وادی میں موبائل فون و انٹرنیٹ خدمات پر پابندی عائد ہے۔ وادی کے تمام تعلیمی ادارے بھی 5 اگست سے تقریباً بند پڑے ہیں۔ اسکولز اور کالجز کھلتے تو ہیں لیکن طلبا کی حاضری صفر ہے۔