جمعے کے پیش نظر حکام کو خدشہ رہتا ہے کہ لوگ بڑے پیمانے پر مظاہروں کا اہتمام کرسکتے ہیں چنانچہ اس پس منظر میں آج وادیٔ کشمیر میں متعدد مقامات پر سکیورٹی میں مزید اضافہ کر دیا گیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق احتجاجی ریلیوں یا مظاہروں کے انعقاد کے امکان کے بارے میں کچھ "افواہوں اور غیر اعلانیہ احتجاج کال" کے پیش نظر مزید پابندیاں عائد کی گئیں۔ تاہم ، عسکریت پسندوں یا "جے آر ایل" کی جانب سے اخبارات یا دیگر میڈیا چینلز کے ذریعہ اس طرح کی کوئی احتجاج کی کال جاری نہیں کی گئی ہے۔
حکام کے مطابق عوام کو ان کی مقامی اور محلہ مساجد میں نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت ہے لیکن امن و امان کو برقرار رکھنے کے لیے سرینگر کی جامع مسجد میں نماز باجماعت کی ادائیگی کی اجازت نہیں ہے۔
وادی کشمیر جمعہ کو مسلسل 54 ویں دن بھی بند رہی۔ جمعہ کو سری گر کے پائین شہر میں لوگوں کی آزادانہ نقل وحرکت پر ایک بار پھر پابندیاں عائد رہیں۔ دیگر 9 اضلاع کے قصبہ جات میں دفعہ 144 کے تحت چار یا اس سے زیادہ افراد کے ایک جگہ جمع ہونے پر پابندی برقرار رکھی گئی ہے۔
وادی کی کچھ مساجد بالخصوص سرینگر کے نوہٹہ میں واقع تاریخی و مرکزی جامع مسجد میں مسلسل ساتویں جمعہ کو بھی نماز جمعہ ادا کرنے کی اجازت نہیں دی گئی۔
واضح رہے کہ قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوبھال نے جمعرات کو ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ میں وادی کشمیر کی سکیورٹی صورتحال کا جائزہ لیا۔
ڈوبھال نے 5 اگست کے بعد کئی روز تک وادی میں قیام کیا تھا۔ انکی دلی واپسی کے بعد انکا یہ دوسرا سرینگر کا دورہ ہے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق اجیت ڈوبھال وادی میں تمام سکیورٹی ایجنسیز کے ساتھ نشستوں میں سکیورٹی کی تازہ ترین صورتحال کا جائزہ لیں گے۔ اسکے علاوہ وہ گورنر انتظامیہ کے ساتھ سیاسی رہنماؤں کی نظر بندی کا بھی جائزہ لیں گے۔
مرکزی حکومت کی طرف سے 5 اگست کو اٹھائے گئے اقدامات جن کے تحت جموں وکشمیر کو خصوصی پوزیشن عطا کرنے والی آئین ہند کی دفعہ 370 ہٹائی گئی اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرکے مرکز کے زیر انتظام والے علاقے بنایا گیا کے بعد سے وادی کشمیر میں معمول کی زندگی معطل ہے۔ ہر طرح کی انٹرنیٹ اور موبائل فون خدمات بدستور منقطع ہیں۔
انتظامیہ کا دعویٰ ہے کہ پڑوسی ملک پاکستان کشمیر میں فون اور انٹرنیٹ خدمات کو اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے استعمال کرتا ہے۔
انتظامیہ کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ وادی کی صورتحال تیزی کے ساتھ بہتری کی جانب گامزن ہے تاہم اس کے برعکس سٹیٹ روڑ ٹرانسپورٹ کارپوریشن کی بسیں بھی سڑکوں سے غائب ہیں۔ ان میں سے کچھ درجن بسوں کو سول سکریٹریٹ ملازمین اور سری نگر کے دو تین ہسپتالوں کے عملے کو لانے اور لے جانے کے لئے استعمال کیا جارہا ہے۔ ایس آر ٹی سی کی کوئی بھی گاڑی عام شہریوں کے لیے دستیاب نہیں ہے جس کی وجہ سے انہیں شدید مشکلات کا سامنا ہے۔