وادی میں ایک مہلک ترین خود کش حملے میں پاکستان میں واقع جیش محمد سے تعلق رکھنے والے ایک فدائین نے پلوامہ ضلع کے لیتھ پورہ کے علاقے میں سی آر پی ایف کے جوانوں کو لے جانے والے فوجی قافلے کو نشانہ بناتے ہوئے بارود سے بھری گاڑی ٹکرا دی جس میں آناً فاناً میں 40 سے زائد جوان لقمہ اجل بن گئے۔
خیال رہے کہ سی آر پی ایف کی 78 گاڑیوں کا قافلہ جموں سے سرینگر جا رہا تھا جس میں سی آر پی ایف کے 2547 اہلکار سوار تھے۔
اس طرح کا حملہ 1989 کے بعد 2019 میں ہوا۔ اس حملے نے پورے ملک کے جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
حملے کے بعد عسکریت پسند تنظیم جیش محمد تنظیم کی جانب سے جاری کردہ ایک ویڈیو میں خودکش حملہ آور کی شناخت عادل احمد ڈار عرف وقاص کمانڈو کے نام سے کی گئی جو ضلع پلوامہ کے قصبے کاکا پورہ سے تعلق رکھتا تھا۔
دھماکہ اتنا زوردار تھا کہ اس کی آواز دس کلومیٹر دور تک سنی گئی۔ سنٹرل ریزرو پولیس فورس (سی آر پی ایف) آج ہلاک ہونے والے جوانوں کو خراج تحسین پیش کرے گا۔
پلوامہ کے سی آر پی ایف ٹریننگ سنٹر لیتھ پورہ میں سی آر پی ایف کے خصوصی ڈائریکٹر جنرل ذوالفقار حسن، انسپکٹر جنرل کشمیر زون راجیش کمار، اور سینئر افسران اور دیگر فورسز کے اہلکار ہلاک شدہ جوانوں کو خراج عقیدت پیش کریں گے۔ اس موقع پر بلڈ ڈونیشن کیمپ کا بھی اہتمام کیا جائے گا۔
اس حملے کے ایک دن بعد 15 فروری کو وزیراعظم نریندر مودی نے ہلاک شدہ جوانوں کو خراج عقیدت پیش کیا ۔
40 فوجیوں کی لاشوں کو سرینگر ایئر بیس پر خصوصی طیارے سے پہنچایا گیا تھا۔
ہلاک شدہ جوانوں کو اعلی سیاسی رہنما اور مسلح افواج کے سربراہان نے بھی خراج عقیدت پیش کیا۔
اس حملے کے نتیجے میں عوام میں شدید غم و غصہ پایا گیا، جس کے نتیجے میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد اپنے غم و غصے کا اظہار کرنے اور عسکریت پسندوں کے خلاف شدید احتجاج کرنے کے لیے ملک کے مختلف حصوں میں سڑکوں پر نکل آئے۔
اس حملے کے بعد سیاسی رہنماؤں نے نظریاتی اختلافات کو بھلا دیا، کیونکہ وہ قومی سلامتی کے معاملے پر متحد تھے۔ جب وزیر داخلہ امت شاہ نے تمام جماعتوں کو سیاست سے اوپر اٹھ کر جوانوں کے ساتھ کھڑے ہونے کی درخواست کی تو کانگریس کے صدر راہل گاندھی نے زور دے کر کہا کہ عسکریت پسند بھارت کو تقسیم نہیں کرسکتے ہیں'۔
حملے کے ایک دن بعد پاکستان کو ایک سخت پیغام دیتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے کہا کہ عسکریت پسندوں نے سی آر پی ایف کے جوانوں کو ہلاک کرکے بڑی غلطی کی ہے' ان کے حمایت کرنے والوں کو بہت بڑی قیمت ادا کرنی ہوگی'۔
اسی دوران سلامتی کی کابینہ کمیٹی نے بھی پاکستان کو دی جانے والی انتہائی پسندیدہ ملک (ایم ایف این) کی حیثیت واپس لینے کا فیصلہ کیا۔ پاکستان کو ایم ایف این کا درجہ بھارت نے 1996 میں دیا تھا۔
اس سانحہ سے ملک بھر میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور حب الوطنی کے جذبات کے ساتھ عوام اپنے محبین وطن کے لیے سڑکوں پر اترے اور انہیں گلہائے عقیدت پیش کیا۔ ہلاک شدگان کو ترنگے میں رکھ کر ان کے گھروں تک پہنچایا گیا اور سرکاری اعزاز کے ساتھ ان کی آخری رسومات ادا کی گئیں۔
وزراء ، سیاسی رہنماؤں اور مقامی عہدیداروں نے ان کی آخری رسومات میں شرکت کی اور انہیں نم آنکھوں سے الوداع کہا۔
مظاہرین نے سی آر پی ایف کی حمایت میں نعرے بازی کی اور مطالبہ کیا کہ حکومت ان ہلاکتوں کا انتقام لے اور عسکریت پسند تنظیم کو بھرپور جواب دے۔
تاہم ، حملے کے 12 دن بعد 26 فروری کو بھارت نے پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے بالاکوٹ میں جیش محمد کے سب سے بڑے تربیتی کیمپ پر فضائیہ حملہ کیا، جس میں بہت بڑی تعداد میں عسکریت پسندوں کی ہلاکت کا دعوی کیا گیا تاہم پاکستان نے ان تمام دعووں کو غلط قرار دیا۔
اس حملے کے دوران آئی اے ایف کے 35 سالہ ونگ کمانڈر ابھینندن ورتھمان کو پاکستان کے قبضے میں 60 گھنٹوں سے زیادہ عرصے تک رکھا گیا، آخر کار پاکستان نے ونگ کمانڈر کو بھارت کے حوالے کر دیا۔