ETV Bharat / state

'اپنے حقوق کی جدوجہد کے لیے زندہ رہنا ضروری'

شاہ فیصل نے خدشہ ظاہر کیا کہ قتل عام بھی ہوسکتا ہے لیکن انہوں نے لوگوں کے صبر وتحمل کی تعریف کی اور اسے بنائے رکھنے کی اپیل کی۔

author img

By

Published : Aug 7, 2019, 12:34 PM IST

'اپنے حقوق کی جدوجہد کے لیے زندہ رہنا ضروری'

جموں وکشمیر پیپلز مومنٹ کے سربراہ اور سابق آئی اے ایس افسر ڈاکٹر شاہ فیصل نے فیس بک کے ذریعے کشمیری عوام سےکہا: ' جب ہم زندہ رہیں گے تب ہی ہم اپنے حقوق کے لیے جدو جہد کر سکتے ہیں۔'

شاہ فیصل نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک کے ذریعے وادیٔ کشمیر کی تازہ صورتحال کے بارے میں جانکاری فراہم کی ہے۔

'اپنے حقوق کی جدوجہد کے لیے زندہ رہنا ضروری'
'اپنے حقوق کی جدوجہد کے لیے زندہ رہنا ضروری'

شاہ فیصل نے کہا کہ کشمیر میں کبھی ایسا خوف و دہشت نہیں دیکھا گیا۔ کشمیر میں زندگی تھم سی گئی ہے۔ سرینگر کے زیرو بریج سے ایئرپورٹ تک چند گاڑیوں کی نقل و حمل دیکھی جاسکتی ہے لیکن دیگر مقامات میں مکمل طور پر بندشیں عائد کی گئی ہیں۔ جن مریضوں کے پاس کرفیو پاس ہے ان کو جانے دیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مین اسٹریم جماعتوں کے رہنماؤں عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی اور سجاد غنی لون تک پہنچنا ناممکن ہے۔ یہاں تک کہ ان تک پیغام بھی پہنچانا ناممکن ہے۔

انتظامیہ نے دیگر اضلاع میں سیکورٹی کے سخت انتطامات کئے ہوئے ہیں۔ایسا کہہ سکتے ہیں کہ اسی لاکھ کی آبادی کو پہلی بار گھروں کے اندر بند کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کشمیر میں اب تک کھانے پینے اور بنیادی ضرورت کی چیزوں کی کمی نہیں ہے۔ریاستی انتظامیہ میں میرے ذرائع کے مطابق سکیورٹی افسران کو سٹیلائٹ فون بنیادی ضرورت کو فراہم کرنے کے لیے دیا گیا ہے۔سٹالائٹ فون کے بغیر یہاں کوئی رابطہ نہیں ہے۔

شاہ فیصل نے کہا کہ جن کے پاس ڈش ٹی وی کا کنکشن ہے وہی صرف نیوز کو دیکھ رہے ہیں ۔ کیبل سروس کو بند کر دیا گیا ہے۔ وادی کشمیر میں لوگوں کی اکثریت کو معلوم ہی نہیں ہے کہ کیا ہوا ہے۔ ریڈیو چند گھنٹے پہلے تک چل رہا تھا لیکن اب اس کی سروس کو بند کر دیا گیا ہے۔کشمیری عوام کی اکثریت ڈی ڈی نیوز چینل کو دیکھ رہے ہیں۔ قومی میڈیا کو اندرونی علاقوں میں داخل ہونے نہیں دے رہے ہیں۔

کشمیر کے لل دید ہسپتال میں بھاری رش ہے کیونکہ حاملہ خواتین کو (احتیاطی طور) وقت سے پہلے ہی داخل کیا جارہا ہے تاکہ بعد میں ایمرجنسی کی صورت میں دشواریوں کا سامنہ نہ کرنا پڑے۔چند لوگ لل دید اسپتال کے نزدیک لنگر کے اہتمام کی بھی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔


سرکاری طور پر اب تک وادیٔ کشمیر میں کسی بھی ناخوشگوار واقع کی اطلاع نہیں ہے۔ تاہم چند مقامات پر پھتراؤ کے واقعہ رونما ہوئے ہیں جن میں رامباغ، نٹی پورہ، کولگام، اننت ناگ شامل ہیں۔ لیکن کسی بھی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ہے۔

کشمیر یوں کے چہروں پر احساس شکست نمایاں ہوگیا ہے اور وہ خود کو شہریوں کے بجائے رعایا کے طور دیکھ رہے ہیں۔ ہر طرف کشمیری دکھ منا رہے ہیں۔

شاہ فیصل نے کہا کہ' میں نے لوگوں سے دفعہ 370 کی منسوخی پر بات چیت کی تو ان کا کہنا ہے کہ یہ نہ صرف ریاست کا نقصان ہے بلکہ اس سے ہمیں بھی گہرا دکھ پہنچا ہیں۔'

شاہ فیصل نے کہا کہ جو رہنما گرفتاری سے بچ گئے ہیں ان کو ٹی وی چینلز کے ذریعے آگاہ کیا جارہا ہے کہ وہ امن و امان قائم کریں۔ حکومت کے اس فیصلے کے بعد یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ یہاں پر کوئی بڑا واقع یا حادثہ پیش آسکتا ہے۔ یہ کہا جارہا ہے کہ حکومت 8 سے 10ہزار ہلاکتوں کیلئے تیار ہے۔جس میں ہزاروں لوگوں کی جان جا سکتی ہے۔انہوں نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ صبر کا دامن تھامے رکھیں اور ان کو ایسا کوئی موقع نہ دیں جس سے قتل عام ہو سکتا ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ناکوں پر تعینات سکیورٹی فورسز کا رویہ انتہائی سخت ہے۔جموں و کشمیر پولیس کے اہلکاروں کو درکنار کردیا گیا ہے۔ ایک اہلکار نے میرے ایک جانکار کو بتایا ’’اب آپ لوگوں کو اوقات دکھائی جائے گی‘‘۔
میں نے کئی واقعات سنے جن میں لوگوں کو دھتکارنے کی کوشش کی گئی لیکن یہ بات خوش آئند ہے کہ لوگ صبر و تحمل کا مظاہرہ کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جو کشمیر آنا چاہتے ہیں وہ کچھ وقت تک آنے سے پرہیز کریں۔ اگر کرفیو بھی ہٹ جاتا ہے تب بھی یہاں صورتحال بہت ہی خراب رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ سرنگر ایئرپورٹ پر میں چند نوجوانوں سے ملا جو مجھ سے صرف یہی پوچھ رہے تھے کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ میں نے ان سے کہا کہ ہم ایک ساتھ سپریم کورٹ تک جائیں گے اور انصاف کی مانگ کریں گے۔

شاہ فیصل نے کہا کہ عالمی براداری نے اپنی آنکھیں بند کر کے رکھ دی ہیں۔ تو مجھے ان سے اب کوئی بھی امید نہیں ہے۔

سبھی سیاسی جماعتیں اس پر متفق ہیں کہ ان غیر اائینی قوانین کو چیلنج کیا جائیگا جنہون نے ہم سے ہماری تاریخ اور شناکت چھین لی ہے۔

انہوں نے کہا کہ زندگی کی افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ دن کے اجالے میں ہم سے چھینی ہوئی دولت وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ ہی ایک دن ہمیں واپس لوٹا سکتے ہیں۔

لیکن جو ہم نے کھویا وہ تو ہم کھو چکے ہے یا شاید ہم سب کچھ کھو چکے ہے۔ہم نے جو نہین کھویا ہے وہ ہمارا مقابلہ کرنے کیلئے ہمارا عزم ہے۔ اور ہم اس عزم پر قائم رہیں گے۔

جموں وکشمیر پیپلز مومنٹ کے سربراہ اور سابق آئی اے ایس افسر ڈاکٹر شاہ فیصل نے فیس بک کے ذریعے کشمیری عوام سےکہا: ' جب ہم زندہ رہیں گے تب ہی ہم اپنے حقوق کے لیے جدو جہد کر سکتے ہیں۔'

شاہ فیصل نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک کے ذریعے وادیٔ کشمیر کی تازہ صورتحال کے بارے میں جانکاری فراہم کی ہے۔

'اپنے حقوق کی جدوجہد کے لیے زندہ رہنا ضروری'
'اپنے حقوق کی جدوجہد کے لیے زندہ رہنا ضروری'

شاہ فیصل نے کہا کہ کشمیر میں کبھی ایسا خوف و دہشت نہیں دیکھا گیا۔ کشمیر میں زندگی تھم سی گئی ہے۔ سرینگر کے زیرو بریج سے ایئرپورٹ تک چند گاڑیوں کی نقل و حمل دیکھی جاسکتی ہے لیکن دیگر مقامات میں مکمل طور پر بندشیں عائد کی گئی ہیں۔ جن مریضوں کے پاس کرفیو پاس ہے ان کو جانے دیا جا رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ مین اسٹریم جماعتوں کے رہنماؤں عمر عبداللہ، محبوبہ مفتی اور سجاد غنی لون تک پہنچنا ناممکن ہے۔ یہاں تک کہ ان تک پیغام بھی پہنچانا ناممکن ہے۔

انتظامیہ نے دیگر اضلاع میں سیکورٹی کے سخت انتطامات کئے ہوئے ہیں۔ایسا کہہ سکتے ہیں کہ اسی لاکھ کی آبادی کو پہلی بار گھروں کے اندر بند کر دیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ کشمیر میں اب تک کھانے پینے اور بنیادی ضرورت کی چیزوں کی کمی نہیں ہے۔ریاستی انتظامیہ میں میرے ذرائع کے مطابق سکیورٹی افسران کو سٹیلائٹ فون بنیادی ضرورت کو فراہم کرنے کے لیے دیا گیا ہے۔سٹالائٹ فون کے بغیر یہاں کوئی رابطہ نہیں ہے۔

شاہ فیصل نے کہا کہ جن کے پاس ڈش ٹی وی کا کنکشن ہے وہی صرف نیوز کو دیکھ رہے ہیں ۔ کیبل سروس کو بند کر دیا گیا ہے۔ وادی کشمیر میں لوگوں کی اکثریت کو معلوم ہی نہیں ہے کہ کیا ہوا ہے۔ ریڈیو چند گھنٹے پہلے تک چل رہا تھا لیکن اب اس کی سروس کو بند کر دیا گیا ہے۔کشمیری عوام کی اکثریت ڈی ڈی نیوز چینل کو دیکھ رہے ہیں۔ قومی میڈیا کو اندرونی علاقوں میں داخل ہونے نہیں دے رہے ہیں۔

کشمیر کے لل دید ہسپتال میں بھاری رش ہے کیونکہ حاملہ خواتین کو (احتیاطی طور) وقت سے پہلے ہی داخل کیا جارہا ہے تاکہ بعد میں ایمرجنسی کی صورت میں دشواریوں کا سامنہ نہ کرنا پڑے۔چند لوگ لل دید اسپتال کے نزدیک لنگر کے اہتمام کی بھی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔


سرکاری طور پر اب تک وادیٔ کشمیر میں کسی بھی ناخوشگوار واقع کی اطلاع نہیں ہے۔ تاہم چند مقامات پر پھتراؤ کے واقعہ رونما ہوئے ہیں جن میں رامباغ، نٹی پورہ، کولگام، اننت ناگ شامل ہیں۔ لیکن کسی بھی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ہے۔

کشمیر یوں کے چہروں پر احساس شکست نمایاں ہوگیا ہے اور وہ خود کو شہریوں کے بجائے رعایا کے طور دیکھ رہے ہیں۔ ہر طرف کشمیری دکھ منا رہے ہیں۔

شاہ فیصل نے کہا کہ' میں نے لوگوں سے دفعہ 370 کی منسوخی پر بات چیت کی تو ان کا کہنا ہے کہ یہ نہ صرف ریاست کا نقصان ہے بلکہ اس سے ہمیں بھی گہرا دکھ پہنچا ہیں۔'

شاہ فیصل نے کہا کہ جو رہنما گرفتاری سے بچ گئے ہیں ان کو ٹی وی چینلز کے ذریعے آگاہ کیا جارہا ہے کہ وہ امن و امان قائم کریں۔ حکومت کے اس فیصلے کے بعد یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ یہاں پر کوئی بڑا واقع یا حادثہ پیش آسکتا ہے۔ یہ کہا جارہا ہے کہ حکومت 8 سے 10ہزار ہلاکتوں کیلئے تیار ہے۔جس میں ہزاروں لوگوں کی جان جا سکتی ہے۔انہوں نے لوگوں سے اپیل کی ہے کہ وہ صبر کا دامن تھامے رکھیں اور ان کو ایسا کوئی موقع نہ دیں جس سے قتل عام ہو سکتا ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ناکوں پر تعینات سکیورٹی فورسز کا رویہ انتہائی سخت ہے۔جموں و کشمیر پولیس کے اہلکاروں کو درکنار کردیا گیا ہے۔ ایک اہلکار نے میرے ایک جانکار کو بتایا ’’اب آپ لوگوں کو اوقات دکھائی جائے گی‘‘۔
میں نے کئی واقعات سنے جن میں لوگوں کو دھتکارنے کی کوشش کی گئی لیکن یہ بات خوش آئند ہے کہ لوگ صبر و تحمل کا مظاہرہ کررہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جو کشمیر آنا چاہتے ہیں وہ کچھ وقت تک آنے سے پرہیز کریں۔ اگر کرفیو بھی ہٹ جاتا ہے تب بھی یہاں صورتحال بہت ہی خراب رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ سرنگر ایئرپورٹ پر میں چند نوجوانوں سے ملا جو مجھ سے صرف یہی پوچھ رہے تھے کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیے۔ میں نے ان سے کہا کہ ہم ایک ساتھ سپریم کورٹ تک جائیں گے اور انصاف کی مانگ کریں گے۔

شاہ فیصل نے کہا کہ عالمی براداری نے اپنی آنکھیں بند کر کے رکھ دی ہیں۔ تو مجھے ان سے اب کوئی بھی امید نہیں ہے۔

سبھی سیاسی جماعتیں اس پر متفق ہیں کہ ان غیر اائینی قوانین کو چیلنج کیا جائیگا جنہون نے ہم سے ہماری تاریخ اور شناکت چھین لی ہے۔

انہوں نے کہا کہ زندگی کی افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ دن کے اجالے میں ہم سے چھینی ہوئی دولت وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ ہی ایک دن ہمیں واپس لوٹا سکتے ہیں۔

لیکن جو ہم نے کھویا وہ تو ہم کھو چکے ہے یا شاید ہم سب کچھ کھو چکے ہے۔ہم نے جو نہین کھویا ہے وہ ہمارا مقابلہ کرنے کیلئے ہمارا عزم ہے۔ اور ہم اس عزم پر قائم رہیں گے۔

Intro:Body:

My appeal has also been that let's stay alive, then we shall fight back.


Conclusion:
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.