ان ہی ہی فنکاروں میں شامل ہیں نور محمد شاہ۔ نور محمد رباب بجاتے اور گاتے ہیں ۔ لوک موسیقی کے علاوہ حمد، نعت کلام اور منقبت بھی گاتے ہیں ۔ وہیں نور محمد کی سحرانگیز اور اثرانداز آواز کے قدرداں نہ صرف یہاں کے بزرگ اشخاص ہیں بلکہ ان کے فن کو پسند کرنے والے نوجوانوں کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے۔
کشمیری گلوکار نور محمد شاہ سے ایک خاص ملاقات - kashmiri famour singer
عالمی وبا کرونا وائرس نے جہاں زندگی کا ہر ایک شعبہ متاثر کیا وہیں اس وبا نے ان فنکاروں کے معمولات بھی اثر انداز کئے جو اپنی فنکارانہ صلاحیتوں سے اپنی روزی روٹی کا بندوبست کرتے ہیں۔
ملئے نور محمد شاہ سے
ان ہی ہی فنکاروں میں شامل ہیں نور محمد شاہ۔ نور محمد رباب بجاتے اور گاتے ہیں ۔ لوک موسیقی کے علاوہ حمد، نعت کلام اور منقبت بھی گاتے ہیں ۔ وہیں نور محمد کی سحرانگیز اور اثرانداز آواز کے قدرداں نہ صرف یہاں کے بزرگ اشخاص ہیں بلکہ ان کے فن کو پسند کرنے والے نوجوانوں کی بھی اچھی خاصی تعداد ہے۔
نور محد کہتے ہیں عالمی وبا کے دوران جس کسی بھی موسیقی کی تقریب پر انہیں دعوت دی گئی وہ سبھی کورونا کے باعث منسوخ کر دی گئیں جبکہ شادی بیاہ کی اکثر تقریبات یا تو ملتوی کی گئیں یا نہایت ہی سادی سے انجام دی گئیں۔ ان وجوہات کی بنا پر انہیں گھر کے اخراجات چلانے میں کئی طرح کی مشکلات کا سامنا رہا۔
دراصل نور محد شاہ اُس وقت شائقین موسیقی کے دلوں میں گھر کر گئے جب دو سال قبل اِن کا ایک ویڈیو وائریل ہوا ۔ جس میں اس فنکار نے سڑک کے کنارے بیٹھکر اسی رباب کے تاروں پر اپنی مسحورکن آواز میں ماں کی محبت اور وفاداری پر منبی ایک کشمیری نغمہ گایا۔ "ژے ہیوکانہ وچھم نے وفادار موجی مینش چان ژے لیے سمسار موجی "۔
اس کے بعد نور محمد کے گائے ہوئے کئی لوک گیت، نعت اور منقبت لوگوں میں مقبول ہوئے اور اس فنکار کو ہر طرح سے پزیرائی حاصل ہوئی۔
نور محد شاہ ہندوارہ تحصیل کے چھل پورہ علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ بچپن سے ہی ان کی موسیقی کی طرف دلچسپی رہی ہے اور پھر انہوں نے موسیقی کے پیشے کو ہی ذریعہ معاش بنایا۔ نور محمد نہ صرف اس وقت منفرد انداز سے گاتے ہیں بلکہ ان کے ساتھ اپنے علاقے کئی فنکار بھی جڑے ہیں جو جگل بندی میں ان کا ساتھ دیتے ہیں۔ بہرحال ضرورت اس بات کی ہے کہ نور محمد جیسے فنکاروں کو حوصلہ دیا جائے تاکہ دور حاضر میں نہ صرف کشمیری لوک سنگیت کو فروغ ملے بلکہ کشمیری زبان و ادب کی بھی آبیاری ہو۔
نور محد کہتے ہیں عالمی وبا کے دوران جس کسی بھی موسیقی کی تقریب پر انہیں دعوت دی گئی وہ سبھی کورونا کے باعث منسوخ کر دی گئیں جبکہ شادی بیاہ کی اکثر تقریبات یا تو ملتوی کی گئیں یا نہایت ہی سادی سے انجام دی گئیں۔ ان وجوہات کی بنا پر انہیں گھر کے اخراجات چلانے میں کئی طرح کی مشکلات کا سامنا رہا۔
دراصل نور محد شاہ اُس وقت شائقین موسیقی کے دلوں میں گھر کر گئے جب دو سال قبل اِن کا ایک ویڈیو وائریل ہوا ۔ جس میں اس فنکار نے سڑک کے کنارے بیٹھکر اسی رباب کے تاروں پر اپنی مسحورکن آواز میں ماں کی محبت اور وفاداری پر منبی ایک کشمیری نغمہ گایا۔ "ژے ہیوکانہ وچھم نے وفادار موجی مینش چان ژے لیے سمسار موجی "۔
اس کے بعد نور محمد کے گائے ہوئے کئی لوک گیت، نعت اور منقبت لوگوں میں مقبول ہوئے اور اس فنکار کو ہر طرح سے پزیرائی حاصل ہوئی۔
نور محد شاہ ہندوارہ تحصیل کے چھل پورہ علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ بچپن سے ہی ان کی موسیقی کی طرف دلچسپی رہی ہے اور پھر انہوں نے موسیقی کے پیشے کو ہی ذریعہ معاش بنایا۔ نور محمد نہ صرف اس وقت منفرد انداز سے گاتے ہیں بلکہ ان کے ساتھ اپنے علاقے کئی فنکار بھی جڑے ہیں جو جگل بندی میں ان کا ساتھ دیتے ہیں۔ بہرحال ضرورت اس بات کی ہے کہ نور محمد جیسے فنکاروں کو حوصلہ دیا جائے تاکہ دور حاضر میں نہ صرف کشمیری لوک سنگیت کو فروغ ملے بلکہ کشمیری زبان و ادب کی بھی آبیاری ہو۔