وادیٔ کشمیر میں مرکز کے اعلان کے بعد عوام مسرت کا اظہار کر رہے ہیں۔ لوگوں کا کہنا ہے کہ اس اقدام کی وجہ سے کشمیری زبان کو مزید فروغ ملے گا۔
مقامی شخص کا کہنا ہے کہ دورجدید میں لوگ اپنے بچوں کو ارود اور انگریزی زبان کے علاوہ کچھ بھی نہیں سکھاتے تھے جس کی وجہ سے کشمیری زبان پر خاصا اثر پڑا ہے۔ تاہم اب حکومت کے اس فیصلے نے کشمیری زبان کو پھر سے زندگی بخشی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ 'ہم حکومت کے شکر گزار ہیں جنہوں نے اتنا بڑا قدم اٹھایا جس سے ہماری کشمیری زبان کو مزید فروغ ملے گا۔'
واضح رہے کہ جموں و کشمیر کی سرکاری زبان اردو رہی ہے۔ سنہ 1889 میں اس وقت کے حکمران مہاراجہ پرتاب سنگھ نے اردو زبان کو جموں و کشمیر کی سرکاری زبان کا درجہ دیا تھا۔ گزشتہ برس مرکزی حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو منسوخ کر دیاگیا۔ اس فیصلے کے بعد سے ہی خدشات ظاہر کیے جارہے تھے کہ جموں و کشمیر میں اردو زبان کی جگہ ہندی زبان کو سرکاری زبان کا درجہ دیا جا سکتا ہے، تاہم مرکزی حکومت نے دو روز قبل کابینہ میٹنگ کے دوران فیصلہ لیا ہے کہ اردو کے ساتھ ساتھ انگریزی، ہندی، کشمیری اور ڈوگری زبان کو بھی سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے گا۔ وہیں سکھ برادری کے لوگوں نے اس فیصلے پر سخت ناراضگی کا اظہار کیا ہے۔ گزشتہ روز سکھ برادری کے لوگوں نے احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ پنجابی کو بھی سرکاری زبان کا درجہ دیا جائے۔