یوروپین یونین کے ساتھ ہوئی بات چیت کا تذکرہ کرتے ہوئے رینہ نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ ’’کشمیری نوجوان امن پسند ہیں، وہ تصادم اور خونریزی کے ساتھ نہیں ہے۔ ہم نے یورپین یونین کے وفد کے سامنے اپنے مطالبات رکھتے ہوئے اُن سے کہا کہ یورپی ممالک کی طرح ہم بھی ترقی اور اپنا مستقبل سنوارنا چاہتے ہیں۔‘‘
رینہ کا مزید کہنا تھا کہ ’’ہم نے یورپین یونین کے وفد کو بتایا کہ باقی دنیا کی طرح کشمیر کے لیے بھی ماحولیاتی تبدیلی کے کافی منفی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں اور ہمیں اس ضمن میں بہت سے کام انجام دینے کی ضرورت ہے۔‘‘
یورپین وفد کے موقف سے اُن کو کیا اُمید ہے؟ اس سوال کے جواب میں رینا کا کہنا تھا کہ ’’کشمیر میں وفد آتے رہتے ہیں اور پھر اپنا موقف بیان کرتے ہیں۔ زمینی صورتِحال وفدوں کو نہیں بلکہ ہمیں بدلنی ہیں۔ مرکزی حکومت کے اس قدم کا ہمیں خیر مقدم کرنا چاہیے کیونکہ ایسے ماحول میں وفد کو کشمیر آنے کی اجازت دینا بھی ایک خوش آئند قدم ہیں۔‘‘
دفعہ 370کی منسوخی کے حوالے سے رینہ نے کہا کہ ’’5 اگست کے بعد کشمیر کا ایک طبقہ خوش ہے تو دوسرا ناراض کیونکہ وہ سمجھتے ہیں کہ انکی شناخت کو خطرہ ہے۔‘‘
قابل ذکر ہے کہ 23 اراکین پر مشتمل یورپین یونین سے وابستہ بعض اراکین کا ایک وفد منگل اور بدھ کو دو روزہ دورے پر کشمیر آیا تھا۔ وفد نے کشمیر میں انتظامیہ کے علاوہ تقریباً 30 غیر سرکاری جماعتوں اور وفود سے ملاقات کی اور وادی کی صورتِحال کا جائزہ لیا۔