ETV Bharat / state

سرینگر میں اخبار چھپتے ہیں، خبریں شائع نہیں ہوتیں

کشمیر میں مقیم صحافی اور نامہ نگار مواصلاتی نظام پر حکام کی غیر معمولی بندشوں کی وجہ سے پیشہ وارانہ فرائض انجام نہیں دے پارہے ہیں۔ صحافیوں کا کہنا ہے کہ حکام کی جانب سے فراہم کردہ مواصلاتی سہولتیں اتنی قلیل ہیں کہ ان کا استعمال کرکے کشمیر کی موجودہ صورتحال کا احاطہ کرنا ناممکن ہوجاتاہے۔

author img

By

Published : Aug 26, 2019, 7:21 PM IST

Updated : Sep 28, 2019, 8:52 AM IST

سرینگر میں اخبار چھپتے ہیں، خبریں شائع نہیں ہوتیں

وادی میں سوموار کو 22ویں روز بھی مسلسل بندشوں اور قدغنوں سے کاروبار زندگی معطل ہے ، لوگ گھروں میں ہی محصور ہیں اور فون، انٹرنیٹ اور مواصلاتی ذرائع پر مکمل پابندی سے عام لوگوں کے ساتھ ساتھ صحافیوں کو بھی اپنی پیشہ ورانہ خدمات انجام دینے میں گونا گوں مشکلات کا سامنا ہے۔

سرینگر میں اخبار چھپتے ہیں، خبریں شائع نہیں ہوتیں

صحافیوں کا کہنا ہے کہ مواصلاتی نظام ٹھپ رہنے سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ صحافی، کشمیر سے باہر اپنے اداروں تک بروقت اپنی خبریں یا رپورٹ پہنچانے سے قاصر ہیں۔

عصرحاضر میں اخبارات کی اشاعت کا انحصار موبائل فون اور انٹرنیٹ پر ہے، جبکہ ٹی وی چینلوں کے لئے بھی انٹرنیٹ اور مواصلاتی ذرائع لازم بن گئے ہیں۔ کیونکہ الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ نامہ نگار اپنے متعلقہ ٹرانسمشنوں تک فون یا انٹرنیٹ کے ذریعے ہی رپورٹ اور حالات و واقعات سے متعلق تفصیلات پہنچا سکتے ہیں۔لیکن انتظامیہ کی جانب سے مواصلاتی نظام ٹھپ کیے جانے سے مقامی، قومی اور

بین الاقوامی صحافیوں کو اس وقت اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دینے میں طرح طرح کی پریشانیاں اور دشواریاں جھیلنی پڑتی ہیں۔

وہیں وادی کی موجودہ حالت کی عکس بندی کرکے فوٹو گرافر اور ویڈیو جرنلسٹ اپنے متعلقہ ہیڈکوارٹرس تک فوٹو یا ویڈیو بڑی مشکل سے پہنچا پاتے ہیں۔
اگرچہ سرکاری اعلانات کے مطابق 80فیصد لینڈلائن فون بحال کیے گئے ہیں لیکن زمینی صورتحال بالکل اس کے برعکس ہے۔

ایک اردو روزنامہ کے مدیر نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ کئی اخبارات نے اپنی اشاعت، بندشیں عائد ہونے کے کئی دن بعد ہی شروع کی تھی لیکن ایسے اخبارات کا شائع ہونا یا نہ ہونا بربر ہے۔

انکا کہنا ہے کہ کسی بھی اخبار نے اپنی ویب سائٹ اپ ڈیٹ نہیں کی ہے جبکہ شائع کئے جانے والے اخبارات کا حجم کم کردیا گیا ہے۔

جو اخبارات بیس یا سولہ صفحات کے شائع ہوتے تھے، وہ اب آٹھ صفحات کے شائع ہوتے ہیں۔ سرینگر اور شمالی کشمیر میں اخبارات روانہ کئے جاتے ہیں لیکن جنوبی کشمیر میں شاذ و نادر ہی ڈسٹری بیوشن کیا جاتا ہے۔

ایک اور اردو روزنامے کے مدیر نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ اخبارات قطعی طور زمینی صورتحال کی عکاسی نہیں کررہے ہیں۔ ’’سب ایڈیٹر حضرات سہمے ہوئے ہیں۔ موجودہ حالات پر کسی نے اداریہ نہیں لکھا ہے۔ کیا آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ 370 ہٹائے جانے کا تاریخی اقدام اٹھایا گیا ہے لیکن کسی مقامی اخبار میں اس پر کوئی تبصرہ شائع نہیں ہوا ہے‘‘۔

انہوں نے کہا کہ مستقبل میں جب آج شائع ہونے والے اخبارات کا مطالعہ کیا جائے گا تو نہ جانے اس وقت کے قارئین یا محققین، ، مقامی صھافیوں کے بارے میں کونسا تأثر پیش کریں گے۔

محکمہ اطلاعات عامہ جموں و کشمیر نے صحافیوں کو اپنی خدمات انجام دینے کے لیے ایک نجی ہوٹل میں عارضی میڈیا سنٹر کا قیام عمل میں تو لایا ہے لیکن یہاں چند کمپیوٹرز پر سست رفتار انٹرنیٹ اسپیڈ اور رابطے کے لئے

ایک موبائل فون کی سہولیات صحافیوں کی ضروریات پورا نہیں کر پاتے۔سینکڑوں کی تعداد میں صحافی قطار میں رہنے کے باوجود بھی وقت پر اپنا مواد اپنے اپنے نشتریاتی مراکز تک پہنچا نہیں پاتے ہیں۔

ایک اور صحافی نے کہا کہ اخبارات میں شائع ہونے والے مواد پر نگرانی رکھی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک انگریزی روزنامے میں موجودہ صورتحال سے متعلق بعض تصاویر شائع ہوئی تھیں لیکن حکام نے بالواسطہ طور اخبار کے انتظامیہ کو ایسی تصاویر شائع نہ کرنے کا ’مشورہ‘ دیا۔

وادی میں سوموار کو 22ویں روز بھی مسلسل بندشوں اور قدغنوں سے کاروبار زندگی معطل ہے ، لوگ گھروں میں ہی محصور ہیں اور فون، انٹرنیٹ اور مواصلاتی ذرائع پر مکمل پابندی سے عام لوگوں کے ساتھ ساتھ صحافیوں کو بھی اپنی پیشہ ورانہ خدمات انجام دینے میں گونا گوں مشکلات کا سامنا ہے۔

سرینگر میں اخبار چھپتے ہیں، خبریں شائع نہیں ہوتیں

صحافیوں کا کہنا ہے کہ مواصلاتی نظام ٹھپ رہنے سے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ صحافی، کشمیر سے باہر اپنے اداروں تک بروقت اپنی خبریں یا رپورٹ پہنچانے سے قاصر ہیں۔

عصرحاضر میں اخبارات کی اشاعت کا انحصار موبائل فون اور انٹرنیٹ پر ہے، جبکہ ٹی وی چینلوں کے لئے بھی انٹرنیٹ اور مواصلاتی ذرائع لازم بن گئے ہیں۔ کیونکہ الیکٹرانک میڈیا سے وابستہ نامہ نگار اپنے متعلقہ ٹرانسمشنوں تک فون یا انٹرنیٹ کے ذریعے ہی رپورٹ اور حالات و واقعات سے متعلق تفصیلات پہنچا سکتے ہیں۔لیکن انتظامیہ کی جانب سے مواصلاتی نظام ٹھپ کیے جانے سے مقامی، قومی اور

بین الاقوامی صحافیوں کو اس وقت اپنے پیشہ ورانہ فرائض انجام دینے میں طرح طرح کی پریشانیاں اور دشواریاں جھیلنی پڑتی ہیں۔

وہیں وادی کی موجودہ حالت کی عکس بندی کرکے فوٹو گرافر اور ویڈیو جرنلسٹ اپنے متعلقہ ہیڈکوارٹرس تک فوٹو یا ویڈیو بڑی مشکل سے پہنچا پاتے ہیں۔
اگرچہ سرکاری اعلانات کے مطابق 80فیصد لینڈلائن فون بحال کیے گئے ہیں لیکن زمینی صورتحال بالکل اس کے برعکس ہے۔

ایک اردو روزنامہ کے مدیر نے ای ٹی وی بھارت کو بتایا کہ کئی اخبارات نے اپنی اشاعت، بندشیں عائد ہونے کے کئی دن بعد ہی شروع کی تھی لیکن ایسے اخبارات کا شائع ہونا یا نہ ہونا بربر ہے۔

انکا کہنا ہے کہ کسی بھی اخبار نے اپنی ویب سائٹ اپ ڈیٹ نہیں کی ہے جبکہ شائع کئے جانے والے اخبارات کا حجم کم کردیا گیا ہے۔

جو اخبارات بیس یا سولہ صفحات کے شائع ہوتے تھے، وہ اب آٹھ صفحات کے شائع ہوتے ہیں۔ سرینگر اور شمالی کشمیر میں اخبارات روانہ کئے جاتے ہیں لیکن جنوبی کشمیر میں شاذ و نادر ہی ڈسٹری بیوشن کیا جاتا ہے۔

ایک اور اردو روزنامے کے مدیر نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا کہ اخبارات قطعی طور زمینی صورتحال کی عکاسی نہیں کررہے ہیں۔ ’’سب ایڈیٹر حضرات سہمے ہوئے ہیں۔ موجودہ حالات پر کسی نے اداریہ نہیں لکھا ہے۔ کیا آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ 370 ہٹائے جانے کا تاریخی اقدام اٹھایا گیا ہے لیکن کسی مقامی اخبار میں اس پر کوئی تبصرہ شائع نہیں ہوا ہے‘‘۔

انہوں نے کہا کہ مستقبل میں جب آج شائع ہونے والے اخبارات کا مطالعہ کیا جائے گا تو نہ جانے اس وقت کے قارئین یا محققین، ، مقامی صھافیوں کے بارے میں کونسا تأثر پیش کریں گے۔

محکمہ اطلاعات عامہ جموں و کشمیر نے صحافیوں کو اپنی خدمات انجام دینے کے لیے ایک نجی ہوٹل میں عارضی میڈیا سنٹر کا قیام عمل میں تو لایا ہے لیکن یہاں چند کمپیوٹرز پر سست رفتار انٹرنیٹ اسپیڈ اور رابطے کے لئے

ایک موبائل فون کی سہولیات صحافیوں کی ضروریات پورا نہیں کر پاتے۔سینکڑوں کی تعداد میں صحافی قطار میں رہنے کے باوجود بھی وقت پر اپنا مواد اپنے اپنے نشتریاتی مراکز تک پہنچا نہیں پاتے ہیں۔

ایک اور صحافی نے کہا کہ اخبارات میں شائع ہونے والے مواد پر نگرانی رکھی جارہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک انگریزی روزنامے میں موجودہ صورتحال سے متعلق بعض تصاویر شائع ہوئی تھیں لیکن حکام نے بالواسطہ طور اخبار کے انتظامیہ کو ایسی تصاویر شائع نہ کرنے کا ’مشورہ‘ دیا۔

Intro:Body:

jk: everyday newspapers are published without news stories in kashmir valley


Conclusion:
Last Updated : Sep 28, 2019, 8:52 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.