جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد جہاں کئی قانونی تبدیلیاں ہوئیں۔ وہیں گجر بکروال طبقے کے لیے دفعہ 370 کا منسوخ ہونا باعث اُمید بھی بنا۔
گُجر بکروال طبقے کیلئے بھارت میں بنایا گیا قانون فاریسٹ رائٹس ایکٹ سنہ 2006 میں نافذ کیا گیا لیکن جموں وکشمیر میں دفعہ 370 کے باعث یہ قانون مختلف حکومتیں نافذ نہیں کر پاتی تھیں۔
تاہم دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد جموں و کشمیر یونین ٹیریٹری کی گُجر بکروال آبادی کو اُمید تھی کہ حکومت اس قانون کو یہاں بھی نافذ کرے گی۔ تاہم سات مہینے گزرنے کے باوجود یہ قانون نافذ نہیں کیا گیا۔
جموں وکشمیر میں گُجر بکروال طبقے کے 13 لاکھ کے قریب لوگ آباد ہیں۔ اس آبادی کے اکثر لوگ موسم میں تبدیلی کی وجہ سے اپنے مال مویشی کو چرانے کیلئے جنگلوں کا رخ کرتے ہیں جس کو 'سیزنل مائیگریشن' سے جانا جاتا ہے۔
اس آبادی کا برسوں سے مطالبہ رہا ہے کہ ان کو جنگلات میں رہنے اور جنگل کے ذخیروں پر چند حقوق دئے جائے۔
ایک لمبے عرصے کی جدو جہد کے بعد سنہ 2006 میں مرکزی حکومت نے فاریسٹ رائٹس ایکٹ نافذ کیا تھا جس میں اس آبادی کے حقوق واضح کئے گئے تھے۔
گُجر بکروال طبقے سے وابستہ جہدکاروں اور اسکالرز کا کہنا ہے کہ 'جموں و کشمیر کی انتظامیہ کو یہ قانون بہت پہلے نافذ کرنا چاہئے تھا لیکن اب وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کو حکومت کی منشا پر شک ہو رہا ہے۔'
کشمیر یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کے اسکالر اور گجر بکروال طبقے کے جہدکار زاہد پرواز نے فاریسٹ رائٹس کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا کہ 'اس قانون میں اس طبقے کیلئے حقوق وضع کئے گئے ہیں۔ '
سماجی جہد کار مشتاق بڈگامی نے بتایا کہ 'حکومت کو چاہئے کہ اس قانون کو جلد از جلد نافذ کیا جائے۔'
وہیں شاہ جہاں نامی طالب علم کا کہنا ہے کہ 'اس قانون کے نافذ نہ ہونے سے گُجر بکروال طبقے کے لوگوں کو جنگلوں میں رہنے کے دوران مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔'
انہوں نے اُمید ظاہر کی کہ مرکزی حکومت گُجر بکروال لوگوں کی مشکلات کو مدنطر رکھ کر جموں و کشمیر میں فاریسٹ رائٹس ایکٹ کو نافذ کرے گی۔