ٹکنالوجی کے اس دور میں جہاں ایک طرف ہر شعبہ میں مشینوں کے استعمال کے سبب کام نہایت ہی سہل ہوگیا ہے ۔ تو وہیں آج بھی پانی پر چلنے والی چکی کے مالکان نے اب مشینوں کا استعمال کرنا شروع کیا ہے۔
وسطی کشمیر کے ضلع بڈگام کے رہنے والے دو بھای اکبر ڈار اور علی محمد اس تیز رفتار دور میں بھی پرانے طریقے سےگندم، مکئی، مرچ اور دیگر مسالے پیستے ہیں۔
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے علی محمد کا کہنا ہے کہ "پہلے ہمارے علاقے میں درجنوں پانی پر چلنے والی چکیاں ہوتی تھی اب صرف ایک ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ کم آمدنی ہے اور دوسری پانی کی قلت۔"
اُنہوں نے مزید کہا کہ "اگرچہ پانی کی چکی کا آٹا بہتر ہوتا ہے۔ صحت کے لحاظ سے بھی اور ماحول کے اعتبار سے بھی بہتر ہے ۔ تاہم ہر گزرتے دن کے ساتھ ان چکیوں کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے ۔
وہیں اُن کے بھائی اکبر ڈار کا کہنا ہے کہ "لوگوں کا رجحان اب اس کی طرف کم ہو رہا ہے۔ اور اس کی سب سے بڑی وجہ کم آمدنی ہے ۔
انہوں نے کہاکہ عام طور پر یومیہ صرف 200 روپے ہی کما پاتے ہیں۔ اور اب پانی کی قلت کا بھی سامنا ہے ۔ تو آخر چکی کیسے چلی گی۔
جب ان سے مذکورہ چکی کے متعلق پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ "ہماری پوری زندگی اسی کام میں گزر گئی۔ اب اور کیا کر سکتے ہیں۔ جب تک زندگی ہے ایسے ہی دن گزاریں گے۔
انہوں نے کہا کہ بچوں سے انہیں امید نہیں ہے کہ وہ اس کام کو آگے بڑھائیں گے۔