گزشتہ برس اسی ماہ ریاست کے لوگوں کو تب تذبذب میں ڈالا گیا تھا جب حکومت کی جانب سے سکیورٹی کی بھاری تعیناتی عمل میں لانے،امرناتھ یاترا کو مکمل ہونے سے قبل معطل کرنے، غیر ریاستی باشندوں سمیت ملکی و غیر ملکی سیاحوں کو فوری ریاست چھوڑنے، نوجوانوں، سیاست دانوں، مذہبی رہنماؤں کی گرفتاری بڑے پیمانے پر کی گئی تھی۔تاہم 5 اگست کے روز ریاست کی خصوصی پوزیشن ختم کرکے اسے دو الگ الگ یونین ٹیرٹریز میں تقسیم کرکے مرکز کے زیر انتظام کیا گیا۔
4 اور 5 اگست کی درمیانی رات کو ہی مواصلاتی نظام کو معطل کیا گیا تھا اور ریاست میں سخت ترین کرفیو کا نفاذ عمل میں لا کر اسے کئی ماہ تک مسلسل سخت لاک ڈاون کے اندر دھکیل دیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں
دفعہ 370 کی منسوخی کا ایک سال، کشمیر میں حالات کتنے بدلے؟
وادی کشمیر کی موجودہ صورتحال خراب ہونے کے خدشات کے پیش نظر حکومت کی جانب سے ریاست کے دیگر حصوں کے ساتھ ساتھ اننت ناگ سمیت جنوبی کشمیر کے دیگر اضلاع جیسے،کولگام، پلوامہ، شوپیاں میں بندشیں قائم کی گئیں ہیں۔داخلی اور خارجی راستے بند کئے گئے ہیں۔تاہم ایمرجنسی صورتحال میں کام کرنے والے افراد یا ملازمین کو چلنے کی اجازت دی جا رہی ہے ۔
جنوبی کشمیر کے تمام اضلاع میں دکانیں کاروباری و دیگر ادارے مکمل طور بند ہیں، ٹریفک بھی سڑکوں سے غائب ہے جس کے سبب عام زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے ۔تاہم مجموعی طور جنوبی کشمیر میں حالات ابھی تک پر امن ہیں۔