گیارہ برس قبل آج ہی کے دن بون گام شوپیاں کی رہنے والی آسیہ اور نیلوفر کی لاشیں رنبی آرا نالے سے بر آمد ہوئی تھیں۔
دونوں خواتین، جو رشتے کے لحاظ سے بھابھی اور نند تھیں، کی مبینہ طور پر قتل سے قبل جنسی زیادتی کی گئی تھی اور اس واقعے سے وادی بھر میں احتجاج اور ہڑتال کی شدید لہر چلی تھی اور ضلع شوپیان میں مسلسل 47 دنوں تک ہڑتال کی گئی۔
واضح رہے کہ جنوبی قصبہ شوپیان کی 17 سالہ آسیہ جان اور ان کی بھابھی نیلوفر شکیل 29 مئی 2009 کو سہ پہر کے وقت لاپتہ ہوئی تھیں اور اگلے روز صبح دونوں کی لاشیں رمبی آراء سے بر آمد ہوئیں۔
یہ دونوں اپنے باغ میں گئی تھیں اور لوٹتے وقت لاپتہ ہو گئی تھیں۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ آسیہ اور نیلوفر کے ساتھ اجتماعی جنسی زیادتی کی گئی تھی۔
وہیں پولیس نے دعویٰ کیا تھا کہ دونوں کی موت ندی میں ڈوبنے کی وجہ سے ہوئی کیونکہ ان کی مسخ شدہ لاشیں ندی سے ہی برآمد ہوئی تھیں۔
جنسی زیادتی اور قتل کے واقعہ کو آج گیارہ برس مکمل ہو چکے ہیں لیکن آج تک اس کیس میں کوئی ٹھوس کارروائی نہیں ہوئی ہے اور جنسی زیادتی کا شکار آسیہ اور نیلوفر کے اہل خانہ آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔
شکیل اور ان کے 14 سالہ بیٹے سوزین کے علاوہ ان کے رشتہ دار گزشتہ دس برسوں سے شوپیاں میں ان دونوں خواتین کی جنسی زیادتی اور قتل کے خلاف اسی نالہ رمبی آرا میں خاموش احتجاج کرتے تھے۔
تاہم آج کورونا وائرس کے پیشِ نظر انہوں نے گھر میں ہی خاموش احتجاج کیا۔