گجرات 2002 کے فرقہ وارانہ فسادات کے دوران جو واقعات سامنے آئے اس سے انسانیت شرمشار ہوئی۔
تاریخ کے اوراق پر نظر دوڑائی جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ اشرف المخلوقات میں شمار کیا جانے والا انسان جانوروں سے بھی گیا گذرا ثابت ہورہا ہے۔
انسان سوز فرقہ وارانہ فسادات کی تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ وقتی طور پر سیاسی و مذہبی بہاؤ میں آکر انسان کے ہاتھوں انسان ہی کا تاریخی نقصان ہوتا ہے۔
وقت ہمیشہ یکساں نہیں رہتا۔ فرقہ وارانہ فسادات کے دن بھی کٹ جاتے ہیں،مگر اس کی نشانیاں باقی رہ جاتی ہیں۔
انسانی سماج اور تاریخ کے سینے پر کبھی نہ مٹنے والاایک بد نما ضدی دھبہ لگ جاتا ہے جو کبھی صاف نہیں ہوتا۔
آج بھی گجرات 2002 کے قرقہ وارانہ فسادات کی نشانیوں سے ہم آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات نہیں کر سکتے۔ یہ ایک ایسا سبق ہے جو ہم سے یہ کہتا ہے کہ دنیا میں کہیں بھی کسی بھی نوعیت کے فسادات نہیں ہونے چاہیے۔
27 فروری 2002 کو گودھرا ٹرین سانحہ کے بعد پورے گجرات میں فرقہ وارانہ فسادات ہوئے، جس پر آج بھی عدالتوں میں مقدمات چل رہے ہیں۔
فسادات کو لے کر سپریم کورٹ نے 2008 میں ایس آئی ٹی تشکیل دی جس کے تحت گجرات کے بڑے 9 مقدمات کی تفتیش ہوئی،جس میں احمدآباد کے تین بڑے مقدمات کا شمار ہوتا ہے جس میں خاص طور سے گلبرگ سوسائٹی قتل عام ، نروڈا پاٹیہ اور نروڈا گام کے مقدمات ہیں ۔
سابرمتی ایکسپریس میں آتشزدگی کے بعد احمد آباد کی گلبرگہ سوسائٹی میں 69 لوگوں کو بے رحمی سے زندہ جلا دیا گیا تھا ۔ حملے میں جاں بحق افراد میں کانگریس کے سابق رکن پارلیمنٹ احسان جعفری بھی شامل تھے ۔
گجرات کے اہم تین فرقہ ورانہ فسادات پر مقدمے پر گجرات ہائی کورٹَ کے وکیل شمشاد پٹھان نے کہا کہ احمدآباد کی گلبرگ سوسائٹی میں انہتر افراد کو زندہ جلا کر مار دیا گیا تھا۔ ان میں سے ایک احسان جعفری ہیں ۔ اس معاملے پر احسان جعفری کی اہلیہ ذکیہ جعفری اب تک انصاف کی منتظر ہیں اور نچلی کورٹ سے لے کر سپریم کورٹ تک اس مقدمے کو جانبازی سے لڑ رہی ہیں ۔ سپریم کورٹ میں اب بھی یہ مقدمہ پیڈنگ ہے۔
نڑوڈہ پاٹِیہ میں سو لوگوں کو زندہ جلا دیا گیا تھا اس سلسلے میں اس مقدمے کو لڑنے والے گجرات ہائی کورٹ کے وکیل گووند پرمارنے کہا کہ نروڈا پاٹیہ کیس میں ٹرائل کورٹ نے اکتیس مجرمین کو عمر قید کی سزا سنائی تھی لیکن ہائی کورٹ میں شازش کرنے والوں کو چھوڑ دیا گیا۔اس معاملے کولے کر متاثرین اور ایس آئی ٹی سپرم کورٹ میں اپیل لگا رہے ہیں ۔نروڈا پاٹیہ کیس میں بھی متاثرین کو ادھورا انصاف ملا ۔
نروڈا گاوں کیس بھی بے حد اہمیت کے حامل ہےاس مقدمے میں ٹرائل اب تک پوری نہیں ہوئی ہے ابھی بھی فائنل آرگیومنٹَ کے لیے یہ کیس چل رہا ہے نروڈا گاؤں میں گیارہ لوگوں کو زندہ جلا کر مار دیا گیا تھا وہاں آج بھی متاثرین اس کیس کے فیصلے کا انتظار کر رہے ہیں ۔
گجرات ہائی کورٹَ کے وکیل شمشاد پٹھان نے کہا کہ موجود ہ سرکار کی پالیسی ہے کہ آپس میں نا اتفاقی پیدا کریں ۔
ان تمام مقامات کے فسادت متاثرین آج بھی اپنے حق کی لڑائی لڑ رہے ہیں انصاف کا دروازہ کھٹکٹا رہے ہیں لیکن اب بھی یہ لوگ صرف اور صرف انصاف کے منتظر ہیں۔