کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن سے جہاں کشمیر میں ہر شعبہ بری طرح متاثر ہوا ہے، وہیں سیاحت پر منحصر ہزاروں محنت کشوں کا روزگار بھی چھن گیا ہے۔ ان محنت کشوں میں سینکڑوں شکارا والے ہیں جو کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
معمر محمد سبحان ایسے ہی شکارا والوں میں سے ہیں جو گزشتہ چار ماہ سے بے روزگار ہوئے ہیں جس سے ان کے اہل خانہ بھی شدید متاثر ہوئے ہیں۔
محمد سبحان مانسبل جھیل میں روز صبح دیگر شکارا والوں کے ساتھ مقامی و غیر مقامی سیاحوں کو اس جھیل کی سیر کراتے تھے۔ لیکن لاک ڈاؤن سے سیاح نہ ہونے کی وجہ سے یہ اپنے روزگار کے لئے بہت پریشان ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران اس جھیل میں شکارا چلانے والے افراد گھروں میں ہی محدود رہے۔
انکا کہنا تھا کہ حکومت نے اگرچہ اعلان کیا تھا کہ محنت کشوں کو تین ماہ کے لیے رئلئف دیا جائے گا، لیکن مانسبل جھیل میں شکارا چلانے والوں افراد کو حکومت نے فراموش کیا ہے-
مانسبل جھیل وسطی کشمیر کے ضلع گاندربل میں واقع ہے اور یہ جنوبی ایشیا کا گہرا جھیل مانا جاتا ہے۔
اس شہرت کے لئے یہاں مقامی و غیر مقامی سیاحوں کی بھیڑ ہوا کرتی تھی لیکن لاک ڈاؤن کے دوران یہ جھیل بھی دیگر سیاحتی مقامات کی طرح سیل کیا گیا ہے-
محمد سبحان کا کہنا ہے کہ اس جھیل میں سو کے قریب شکارا والے اپنا روزگار کما رہے تھے لیکن لاک ڈاؤن دوران وہ بالکل بے روزگار ہوئے ہیں-
انہوں نے سرکار سے مطالبہ کیا کہ انہیں بھی ریلیف دیا جائے تاکہ وہ دو وقت کا کھانا کھا سکے
عبدالسلام نامی دوسرے شکارا والے کا کہنا ہے کہ پانچ اگست کے بعد انکی کمائی بری طرح متاثر ہوچکی ہے-
کشمیر میں گزشتہ چار ماہ سے کورونا وائرس لاک ڈاؤن جاری ہے جس سے زندگی کا ہر شعبہ متاثر ہوا ہے۔
اگرچہ انتظامیہ نے چند شعبے ایک شیڈول کے مطابق کھولنے کی اجازت دی ہے تاہم سیاحتی شعبہ پر ابھی بھی پابندی ہے۔
اس سے قبل گزشتہ برس پانچ اگست سے دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد حکومت نے آٹھ ماہ تک پوری وادی میں بندشیں عائد کی تھیں جس سے زندگی مفلوج رہی۔