سپریم کورٹ نے سماج کے دوران میڈیا کو سخت پیغام دیتے ہوئے کہا کہ ’کسی بھی جواز کی بنا پر بھارت کے تمام مسلمانوں کو نشانہ نہیں بنایا جاسکتا اور انہیں بدنام نہیں کیا جاسکتا، ایسا کرنا ملک کے مستقبل کےلیے خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
عدالت نے کہا کہ کسی بھی طبقہ کا وقار اتنا ہی اہم ہے جتنا کے صحافتی آزادی۔ ججس کی حیثیت سے ہم جتنے فکرمند قومی سلامتی کو لیکر ہیں اتنے ہی ملک میں انسانی وقار کے تحفظ کےلیے بھی ہیں۔
سپریم کورٹ نے سدرشن ٹی وی کے ایک متنازعہ پروگرام پر سوال اٹھاتے ہوئے پوچھا کہ آیا میڈیا کو کسی فرقہ کو نشانہ بنانے کی کیسے اجازت دی جاسکتی ہے؟۔ عدالت نے کہا کہ کوئی بھی ٹی وی چینل کسی طبقہ کو بدنام نہیں کرسکتا اور نہ ہی کسی فرقہ کو سماج سے دور کرنے کی کوشش کرسکتا ہے۔
جسٹس ڈی وائی چندر چور کی بنچ نے متنازعہ پروگرام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ چینل سماج میں نفرت پھیلا رہا ہے اور آزادی اظہار رائے کی آڑ میں نفرت کے بیچ بو رہا ہے جبکہ یہ ہرگز نہیں کہا جاسکتا کہ مسلمان کسی ایجنڈہ کے تحت سیول سرویس میں بھرتی ہورہے ہیں۔
عدالت نے اظہار خیال کی آزادی کی بھرپور تائید کرتے ہوئے کہا کہ اس کی آڑ میں نفرت کا پرچار نہیں کیا جاسکتا۔ جسٹس ڈی وائی چندر چور، جسٹس اندو ملہوترہ اور جٹس کے ایم جوزف پر مشتمل بنچ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہاکہ ’سیول سرویس میں مسلمانوں کے داخلہ کو گہری سازش قرار دینا ’فتنہ‘ کی جڑ ہے تاہم اس طرح کے پروگرامز کا مقصد مسلمانوں کو نشانہ بنانا ہوتا ہے۔
سپریم کورٹ نے سماعت کے دوران تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’عدالت صحافتی راہ میں رکاوٹ نہیں بننا چاہتی لیکن انسانی حرمت کی حفاظت عدلیہ کا بنیادی فریضہ ہے۔ بنچ نے کہا کہ ٹی وی چینل اپنے زہریلے پروپگنڈہ کے ذریعہ تمام مسلمانوں کو سماج سے الگ تھلگ کرنا چاہتا ہے جبکہ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ اس ٹی وی چینل پر کسی بھی سرکاری ایجنسی نے اب تک کوئی کاروائی نہیں کی ہے، اسی لیے سپریم کورٹ کاروائی کےلیے مجبور ہے۔