ETV Bharat / state

ہلاک شدگان کو ایک ایک لاکھ روپے دینے کا اعلان

شہریت ترمیمی قانون اور این آرسی کے پس منظر میں جمعیۃ علماء ہند کی قومی مجلس عاملہ کا اہم اجلاس نئی دہلی میں منعقدا ہوا میں کئی اہم فیصلے لیے گئے۔

author img

By

Published : Jan 3, 2020, 8:51 PM IST

ایک ایک لاکھ روپے معاوضہ دینے کا اعلان
ایک ایک لاکھ روپے معاوضہ دینے کا اعلان

میٹنگ میں ملک کے موجودہ حالات بالخصوص سی اے اے، مجوزہ این آرسی کے خلاف جاری ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں اور پولس کارروائیوں پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا گیا۔


مجلس عاملہ میں جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے ان قوانین کے مضمرات اور موجودہ سرکار کے ارادوں پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

ایک ایک لاکھ روپے معاوضہ دینے کا اعلان

سپریم کورٹ کے وکیل شکیل احمد سید نے شہریت ترمیمی ایکٹ سے پیدا شدہ خدشات اور اس سلسلے میں جمعیۃ علماء ہند کے ذریعہ سپریم کورٹ میں دائر عرضی پر رپورٹ پیش کی۔

اس دوران عاملہ نے یہ طے کیا کہ جلد ازجلد مسلم اور غیر مسلم ذمہداران پر مشتمل ایک نمائندہ اجتماع بلایا جائے اور شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف موثر اور طویل جد وجہد کے لیے لائحہ عمل تیار کیا جائے۔


مجلس عاملہ نے سی اے اے کے خلاف احتجاجات میں شہید ہونے والوں کے اہل خانہ کے ساتھ تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے ان کے اہل خانہ کو ایک ایک لاکھ روپئے کی مالی مدد دینے کا فیصلہ کیا ہے نیز یہ بھی طے کیا ہے کہ متاثرین کو ہر طرح کی قانونی امداد بھی فراہم کی جائے گی۔

مجلس عاملہ نے سی اے ایکٹ کے خلاف اپنی منظور کردہ تجویز میں کہا ہے کہ مجلس عاملہ جمعیۃ علماء ہند کا یہ اجلاس حال میں پارلیمنٹ سے منظور شدہ شہریت ترمیمی قانون کو ملک کے دستور و آ ئین کے خلاف تصور کرتے ہوئے اس کی سخت مذمت کرتا ہے۔


ظاہر نظر میں یہ ایکٹ دستور کی دفعہ (14اور 21)کے معارض ہے، اس میں غیر قانونی مہاجر کی تعریف کرتے ہوئے مذہبی بنیاد پر تفریق کی گئی ہے اور اس کا اطلاق صر ف مسلمانوں پر کرکے غیروں کو اس سے باہر رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔

واضح ہو کہ اصولی طور پر جمعیۃ علماء ہند کسی غیر مسلم کو شہریت دینے کے خلاف نہیں ہے، لیکن جس طرح ایک خاص تناظر میں مذہب کو بنیاد بنا کر تفریق کی گئی ہے، اسے دستور میں دی گئی آزادی کے خلاف سمجھتی ہے۔


اس صورت حال کی وجہ سے پورے ملک کے مسلمان اپنے مستقبل کو لے کر شدید تشویش میں مبتلا ہیں کہ اگر ملکی سطح پراین آرسی کا نفاذ ہوا تو جو مسلمان کسی وجہ سے مکمل دستاویزات نہ دکھا پائے گا اس کی شہریت مشکوک سمجھی جائے گی۔


احتجاج میں تشدد اور پولس کے رویے سمیت مظاہرین کے جانب سے کی جانے والی تشدد کی بھی مزمت کی گئی۔


اس موقع پر جمعیۃ علماء ہند بھی احتجاج کرنے والے افراد اور اداروں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ پر امن طور پر اپنا مشن جاری رکھیں، منظم انداز میں احتجاج کریں اور شر پسند عناصر سے ہوشیار رہیں اور کسی بھی حال میں مشتعل نہ ہوں بلکہ صبر وتحمل سے کام لیں اور قا نون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیں ورنہ اس تحریک کو نقصان ہو گا۔

میٹنگ میں ملک کے موجودہ حالات بالخصوص سی اے اے، مجوزہ این آرسی کے خلاف جاری ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں اور پولس کارروائیوں پر تفصیل سے تبادلہ خیال کیا گیا۔


مجلس عاملہ میں جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے ان قوانین کے مضمرات اور موجودہ سرکار کے ارادوں پر اپنے خیالات کا اظہار کیا۔

ایک ایک لاکھ روپے معاوضہ دینے کا اعلان

سپریم کورٹ کے وکیل شکیل احمد سید نے شہریت ترمیمی ایکٹ سے پیدا شدہ خدشات اور اس سلسلے میں جمعیۃ علماء ہند کے ذریعہ سپریم کورٹ میں دائر عرضی پر رپورٹ پیش کی۔

اس دوران عاملہ نے یہ طے کیا کہ جلد ازجلد مسلم اور غیر مسلم ذمہداران پر مشتمل ایک نمائندہ اجتماع بلایا جائے اور شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف موثر اور طویل جد وجہد کے لیے لائحہ عمل تیار کیا جائے۔


مجلس عاملہ نے سی اے اے کے خلاف احتجاجات میں شہید ہونے والوں کے اہل خانہ کے ساتھ تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے ان کے اہل خانہ کو ایک ایک لاکھ روپئے کی مالی مدد دینے کا فیصلہ کیا ہے نیز یہ بھی طے کیا ہے کہ متاثرین کو ہر طرح کی قانونی امداد بھی فراہم کی جائے گی۔

مجلس عاملہ نے سی اے ایکٹ کے خلاف اپنی منظور کردہ تجویز میں کہا ہے کہ مجلس عاملہ جمعیۃ علماء ہند کا یہ اجلاس حال میں پارلیمنٹ سے منظور شدہ شہریت ترمیمی قانون کو ملک کے دستور و آ ئین کے خلاف تصور کرتے ہوئے اس کی سخت مذمت کرتا ہے۔


ظاہر نظر میں یہ ایکٹ دستور کی دفعہ (14اور 21)کے معارض ہے، اس میں غیر قانونی مہاجر کی تعریف کرتے ہوئے مذہبی بنیاد پر تفریق کی گئی ہے اور اس کا اطلاق صر ف مسلمانوں پر کرکے غیروں کو اس سے باہر رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔

واضح ہو کہ اصولی طور پر جمعیۃ علماء ہند کسی غیر مسلم کو شہریت دینے کے خلاف نہیں ہے، لیکن جس طرح ایک خاص تناظر میں مذہب کو بنیاد بنا کر تفریق کی گئی ہے، اسے دستور میں دی گئی آزادی کے خلاف سمجھتی ہے۔


اس صورت حال کی وجہ سے پورے ملک کے مسلمان اپنے مستقبل کو لے کر شدید تشویش میں مبتلا ہیں کہ اگر ملکی سطح پراین آرسی کا نفاذ ہوا تو جو مسلمان کسی وجہ سے مکمل دستاویزات نہ دکھا پائے گا اس کی شہریت مشکوک سمجھی جائے گی۔


احتجاج میں تشدد اور پولس کے رویے سمیت مظاہرین کے جانب سے کی جانے والی تشدد کی بھی مزمت کی گئی۔


اس موقع پر جمعیۃ علماء ہند بھی احتجاج کرنے والے افراد اور اداروں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ پر امن طور پر اپنا مشن جاری رکھیں، منظم انداز میں احتجاج کریں اور شر پسند عناصر سے ہوشیار رہیں اور کسی بھی حال میں مشتعل نہ ہوں بلکہ صبر وتحمل سے کام لیں اور قا نون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیں ورنہ اس تحریک کو نقصان ہو گا۔

Intro:شہریت قانون : مہلوکین کو ایک ایک لاکھ روپے دینے کا جمعیتہ علماء کا اعلان

قومی عاملہ کی میٹنگ میں کئی اہم فیصلے، ملک بھر میں احتجاجی مظاہرہ کا اعلان

شہریت ترمیمی ایکٹ اور این آرسی وغیرہ کے پس منظر میں جمعیۃ علماء ہند کی قومی مجلس عاملہ کا اہم اجلاس صدر جمعیۃ علماء ہند مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری کے زیر صدارت مدنی ہال، صدر دفتر ۱۔ بہادر شاہ ظفر مارگ نئی دہلی میں منعقدا ہو۔
اجلاس میں ملک کے موجودہ حالات بالخصو ص سی اے اے، مجوزہ این آرسی،ملک بھر میں جاری احتجاجی مظاہروں اور پولس کارروائیوں پر تفصیل سے تبادلہ خیال ہو ا۔مجلس عاملہ میں جمعیۃ علماء ہند کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی نے ا ن قوانین کے عواقب و مضمرات اور موجودہ سرکار کے ارادوں پر اپنے خیالات کا اظہار کیا، سپریم کورٹ کے وکیل اور رکن مجلس عاملہ شکیل احمد سید نے شہریت ترمیمی ایکٹ،اس سے پیدا شدہ خدشات اور اس سلسلے میں جمعیۃ علماء ہند کے ذریعہ سپریم کورٹ میں دائر عرضی پر رپورٹ پیش کی۔جس کے بعد مجلس عاملہ نے مذکورہ ایکٹ کے خلاف اہم تجویز منظور کرتے ہوئے اعلان کیا کہ جمعیۃ علماء ہند اس امتیازی قانون کے خاتمے تک آئینی و جمہوری طریقہ پر ہر ممکن جد وجہد جاری رکھے گی۔
مجلس عاملہ نے یہ طے کیا کہ جلد ازجلد مسلم اور غیر مسلم ذمہ دار افراد پر مشتمل ایک نمایندہ اجتماع بلایا جائے اور شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف موثر اور طویل جد وجہد کے لیے لائحہ عمل تیار کیا جائے۔ اس’نمایندہ اجتماع‘ کے علاوہ دہلی اور مختلف صوبوں کے مرکزی شہروں میں بڑے عوامی احتجاجی پروگرام منعقد کیے جائیں۔یہ بھی طے پایا کہ جمعیۃ علماء ہند کا وفد مختلف ہم خیال سیاسی پارٹیوں کے ذمہ داران سے ملاقات کرے گا اور ان کو اس بات پر آمادہ کرے گا کہ وہ اس سیاہ قانون کے خلاف اپنے ورکرز کو ملک گیر سطح پر زمینی جد وجہد کے لیے میدان میں اتاریں۔مجلس عاملہ نے سی اے اے کے خلاف احتجاجات میں شہید ہونے والوں کے اہل خانہ کے ساتھ تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے ان کو مبلغ ایک لاکھ مالی مدد دینے کا فیصلہ کیا ہے نیز یہ بھی طے کیا متاثرین کو ہر طرح کی قانونی امداد فراہم کی جائے گی۔
مجلس عاملہ نے سی اے اے ایکٹ کے خلاف اپنی منظور کردہ تجویز میں کہا ہے کہ”مجلس عاملہ جمعیۃ علماء ہند کا یہ اجلاس حال میں پارلیمنٹ سے منظور شدہ شہریت ترمیمی ایکٹ کو ملک کے دستور و آ ئین کے خلاف تصور کرتے ہوئے اس کی سخت مذمت کرتا ہے، کیوں کہ ظاہر نظر میں یہ ایکٹ دستور کی دفعہ (14اور 21)کے معارض ہے، اس میں ’غیر قانونی مہاجر‘کی تعریف کرتے ہوئے مذہبی بنیاد پر تفریق کی گئی ہے اور اس کا اطلاق صر ف مسلمانوں پر کرکے غیروں کو اس سے باہر رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ واضح ہو کہ اصولی طور پر جمعیۃ علماء ہند کسی غیر مسلم کو شہریت دینے کے خلاف نہیں ہے، لیکن جس طرح ایک خاص تناظر میں مذہب کو بنیاد بنا کر تفریق کی گئی ہے،اسے دستور میں دی گئی آزادی کے خلاف سمجھتی ہے۔واقعہ یہ ہے کہ اس ایکٹ کی وجہ سے ملک کے سیکولر ڈھانچہ پر ایک سوالیہ نشان لگ گیا ہے اور اس کا واضح اثر صوبہ آسام میں این آرسی سے باہر رہ جانے وا لوں پر پڑے گا کہ غیر مسلموں کو تواس ایک ایکٹ کی وجہ سے راحت مل جائے گی لیکن مسلمان غیر قانونی مہاجر قرار پائیں گے۔اس صورت حال کی وجہ سے پورے ملک کے مسلمان اپنے مستقبل کو لے کر شدید تشویش میں مبتلا ہیں کہ اگر ملکی سطح پراین آرسی کا نفاذ ہو ا تو جو مسلمان کسی وجہ سے مکمل دستاویز نہ دکھا پائے گا اس کی شہریت مشکوک سمجھی جائے گی۔ بلاشبہ موجودہ شہریت ترمیمی ایکٹ اور اس کے این آرسی پر پڑنے والے اثرات سے تشویش پیدا ہو نا فطری ہے جس کا دور ہو نا ضروری ہے۔
اس لیے جمعیۃعلماء ہند تفریق پر مبنی اس قانون کو جلد ازجلد واپس لیے جانے کا مطالبہ کرتی ہے اور اس بات پر پرعزم ہے کہ وہ اس امتیازی قانون کے خاتمے تک آئینی و جمہوری طریقہ پر ہر ممکن جد وجہد جاری رکھے گی (ان شاء اللہ تعالی)“
احتجاج میں تشدد اور پولس کے رویے کی مذمت:
”مجلس عاملہ جمعیۃ علما ء ہند شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف ملک بھر میں ہونے والے احتجاج کی قدر کرتے ہوئے اس میں ہر قسم کی تشدد کی مذمت کرتی ہے خواہ مظاہرین کی طرف سے ہو یاپولس کی طرف سے۔جمہوری حکومت میں احتجاج کرنا ہر شہری کا آئینی حق ہے، اس لیے جمعیۃ علماء ہند کا مطالبہ ہے کہ حکومت کسی بھی پر امن احتجاج کو روکنے کی ہرگز کوشش نہ کرے۔اس سے اشتعال پیدا ہوتا ہے جس سے بہرحال بچنے کی ضرورت ہے۔حالیہ دنوں میں بالخصوص یوپی حکومت کی طرف سے احتجاجیوں کے ساتھ منفی رویہ کی جمعیۃعلماء ہند پرزور مذمت کرتی ہے، اس بارے میں اترپردیش کے وزیر اعلی نے جس طرح کے سخت بیانات دے کر اپنی ظالم و جابر پولس کا حوصلہ بڑھانے کی بات کی ہے، اس نے انگریزوں کے زمانے کی یاد تازہ کردی ہے، اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔اس موقع پر جمعیۃ علماء ہند بھی احتجاج کرنے والے افراد اور اداروں سے اپیل کرتی ہے کہ وہ پر امن طور پر اپنا مشن جاری رکھیں، منظم انداز میں احتجاج کریں اور شر پسند عناصر سے ہوشیار رہیں اور کسی بھی حال میں مشتعل نہ ہوں بلکہ صبر وتحمل سے کام لیں اور قا نون کو اپنے ہاتھ میں نہ لیں ورنہ اس تحریک کو نقصان ہو گا۔“Body:@
ویڈیو موجو میں چیک کریں Conclusion:

For All Latest Updates

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.