دہلی: جمعیۃ علماء کی مجلس منتظمہ کے ایک اہم اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا ارشد مدنی نے صاف لفظوں میں کہا کہ مسلم فرقہ پرستی ہو یا ہندو فرقہ پرستی جمعیۃ علماء ہند ہر طرح کی فرقہ پرستی کے خلاف ہے کیونکہ یہ ملک کے اتحاد کے لئے تباہ کن ہے، انہوں نے کہا کہ آزادی کے بعد جب مذہب کی بنیاد پر ملک کو تقسیم کرنے کی بعض لوگوں کی جانب سے سازش شروع ہوئی تو اس کے خلاف اٹھنے والی پہلی آواز جمعیۃ علماء ہند کی تھی، ہمارے بزرگوں کا نظریہ یہ تھا کہ جب ہم تیرہ چودہ سو برس سے محبت اور اخوت کے ساتھ ایک جگہ رہتے آئے ہیں تو اب آزادی کے بعد ہم ایک ساتھ کیوں نہیں رہ سکتے؟
مولانا مدنی نے کہا کہ جمعیۃعلماء ہند کا نظریہ آج بھی یہی ہے ہم مذہب کی بنیاد پر کسی بھی طرح کی تقسیم کے خلاف ہیں کیونکہ ہمارا ماننا ہے کہ محبت، اخوت بھائی چارہ اور اتحاد سے ہی یہ ملک زندہ رہ سکتا ہے اور آگے بڑھ سکتا ہے ورنہ آج نہیں تو کل اور کل نہیں تو پرسوں یہ تباہ و برباد ہو جائے گا، انہوں نے وضاحت کی کہ جمعیۃ علما ء ہند کوئی سیاسی جماعت نہیں ہے ایک مذہبی جماعت ہے جب ملک کو آزاد کرانے کا مسئلہ تھا تو ہمارے اکابرین نے اس کے لئے سر دھرکی بازی لگادی 1803 سے 1947 تک علما نے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر غلامی کی زنجیروں کو کانٹنے کا کام کیا بعد میں جب شیخ الہند ؒ مالٹا کی جیل سے باہر آئے تو انہوں نے اعلان کیا کہ ملک کی آزادی کا مشن تنہا مسلمانوں کی جدوجہد سے پورا نہیں ہوسکتا اس کے لئے آزادی کی تحریک کو ہندو مسلم کی تحریک بنانی پڑے گی چنانچہ ہمارے اکابرین ہندومسلم اتحاد کی راہ پر آگے بڑھے اور ملک کو انگریزوں کی غلامی سے آزاد کرا لیا اسی موقع پر ہمارے اکابرین نے اعلان کیا کہ ہمارا مقصد ملک کو غلامی سے آزاد کرانا تھا ہمارا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے،
انہوں نے کہا کہ ملک کے دستور نے شہریوں کو مکمل مذہبی آزادی کے ساتھ جینے کا حق دیا اور جمعیۃ علماء ہند نے بھی اسے اپنے دستور کا حصہ بنا لیا، حاضرین کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اکابرین کا کردار و عمل ہمارے لئے مشعل راہ ہے، اور اس کو ہمیں حرزجاں بنا لینا چاہئے ہم گھر گھر گاؤں گاؤں قصبہ قصبہ شہرشہر، کھیت کھیت جائیں اور جمعیۃ علماء ہند کے اس بنیادی اصول کو پہنچائیں کہ اخوت، ہمدردی ہی وہ پتوار ہے جو ملک کی کشتی کو ساحل سے لگا سکتی ہے، انہوں نے کہا کہ دستور نے شہریوں کو جو حقوق اور اختیارات دیئے فرقہ پرستوں کی ٹولی نے اسے آگ لگادی ہے، جمہوریت اورسیکولرزم کی روایت کو ختم کرنے کی درپردہ سازشیں ہورہی ہیں، جس سے صورتحال انتہائی دھماکہ خیز ہو رہی ہے، صبر و تحمل اور رواداری کے جذبہ دلوں سے ختم ہوچکے ہیں یہاں تک کہ فرقہ پرستی اب اس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ اب ہر بات کو فرقہ پرستی کی نظر سے دیکھا جانے لگا ہے، اگر دو گاڑیوں میں ٹکر ہو جائے تو اب ملک میں اسی معمولی بات پر قتل ہو جاتا ہے، انہوں نے کہا کہ آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت سے ملاقات کے دوران ہم نے اس بات کو خصوصیت کے ساتھ اٹھایا تھا اور ان سے پوچھا تھا کہ آخر کس طاقت نے لوگوں میں اس طرح کا تعصب اور نفرت بھر دیا ہم نے یہ بھی کہا تھا کہ اگر اسے روکا نہیں گیا تو ملک تباہ ہوجائے گا مگر اس سلسلہ میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی،
فلسطین میں جاری جنگ کے تناظرمیں انہوں نے کہا کہ فلسطین کے عوام اپنے ملک کے آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں اوریہ جنگ ایک دودن میں نہیں جیتی جاسکتی بلکہ اس کے لئے اسی طرح مسلسل قربانیاں دینی پڑے گی جس طرح ہم نے اپنے ملک کی آزادی کے لئے قربانیاں دی ہیں انہوں نے یہ بھی کہا کہ وہی لوگ اول جلول باتیں کرتے ہیں جو فلسطین کی تاریخ سے واقف نہیں ہے اسرائیل کا کوئی وجود نہیں تھا لیکن سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد ایک سازش کے تحت امریکہ، برطانیہ اور دوسری طاقتوں نے یہودیوں کو وہاں لاکر آباد کیا، انہوں نے آگے کہا کہ فرقہ پرستی نے حیرت انگیز طور پر عالمی شکل اختیار کرلی ہے اس کا افسوس ناک نظارہ اس جنگ میں دیکھنے کو مل رہاہے کہ جب مجبور و بے بس فلسطین کے عوام کے خلاف یہودی اورتمام عیسائی ممالک نہ صرف متحد ہو چکے ہیں بلکہ کھل کر اسرائیل کی حمایت کررہے ہیں، بعض لوگ اسے عالمی جنگ بنانا چاہتے ہیں لیکن اگر سرزمین عرب کو میدان جنگ بنایا گیا توپھر مسلمانوں کی کوئی چیز محفوط نہیں رہ سکے گی، مولانا مدنی نے کہا کہ وہ اسلام دشمن طاقتیں جو دنیا کو تباہ کرنا چاہتی ہیں اور مسلمانوں پر زمین تنگ کر دینے کے درپے ہیں وہ چاہتی ہیں کہ اس جنگ کو عالمی جنگ بنا دیا جائے۔
اجلاس میں ارتداد کے فتنہ پر بھی مولانا مدنی نے تفصیل سے گفتگو کی اور کہا کہ اس کی بنیادی وجہ مخلوق تعلیم ہے، انہوں نے کہا کہ اگر کوئی مسلم لڑکا کسی غیر مسلم لڑکی سے ناجائز تعلق رکھتا ہے تو اسلام اس کو لعنت سمجھتا ہے، جہاں تک ہندو مذہب کی بات ہے توان کے یہاں ذات پات کا تصور بہت مضبوط ہے، مسلمانوں میں ایسا نہیں ہے لیکن ان کے یہاں ایک برادری کی دوسری برادری میں شادی نہیں ہوسکتی، مگر اس کے باوجود حالیہ دنوں میں مسلم لڑکیوں سے شادیوں کے افسوسناک واقعات سامنے آئے ہیں انہوں نے کہا کہ یہ بلا سبب نہیں ہے بلکہ فرقہ پرستوں کا ایک ٹولہ منظم طور پر اس کی پشت پناہی کررہاہے کہ مسلم بچیوں کو مرتد بنایا جائے.
یہ بھی پڑھیں: پروفیسر اقبال حسین جامعہ ملیہ اسلامیہ کے نئے وائس چانسلر، پروفیسر نجمہ اختر سبکدوش
مولانا مدنی نے کہا کہ اس کے سدباب کے لئے ضروری ہے کہ ہم ایسے الگ الگ اسکول قائم کریں جہاں ہمارے بچے بچیاں مذہبی اوراسلامی ماحول میں رہ کر تعلیم حاصل کرسکیں، مدرسے اسلام کے وجودکے لئے ضروری ہے لیکن ہم اپنے بچوں کو عصری تعلیم سے محروم نہیں رکھ سکتے۔ کیونکہ اگر ایسا کیا گیا توپھر وہ ملک کے قومی دھارے سے کٹ جائیں گے، مدنی ہائی اسکول کاذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم اسے انٹرکالج بنائیں گے ہماراپروگرام یہاں ایک لاء کالج قائم کرنے کا بھی ہے جہاں ہندومسلم کی تفریق کئے بغیر میرٹ والے بچوں کو مفت قانون کی تعلیم مہیاکی جائے گی۔