مہاتما گاندھی اور رابندر ناتھ ٹیگور مختلف امور پر نظریاتی طور پر اختلاف رکھتے تھے لیکن اس کے باوجود ایک مشترکہ مقصد کے لیے 'ایک ہی کشتی پر سوار مسافر' کے مانند ان کی خدمات قابل ستائش ہیں۔
رابندر ناتھ ٹیگور اور گاندھی کے درمیان بہت سارے معاملات کے بارے میں مکمل طور پر الگ الگ نقطہ نظر تھا، جن کی بنیاد پر ہماری آزادی کی جدوجہد آگے بڑھتی رہی۔
ٹیگور نے متعدد بار گاندھی کے مسائل کو حل کرنے یا سمجھنے کے طریقہ کار پر اختلاف کرتے ہوئے ایک الگ نقطہ نظر سے شاعری کو تخلیق کیا۔
تاریخ کے مطالعہ سے ہمیں یہ پتہ چلتا ہے کہ ان دونوں شخصیات کے درمیان اختلاف کے باوجود کئی امور میں یکسانیت پائی جاتی ہے۔
مزید پڑھیں : گاندھی جی کی چھتیس گڑھ سے جڑی یادیں
گاندھی جی اور ٹیگور کی سرگرمیوں کی حکمت عملی اور اس کی اخلاقی افادیت الگ الگ تھی۔ ان شرائط کے وسیع معنوں میں دونوں کے درمیان نظریاتی اور فلسفیانہ بحثیں ہوتی تھیں۔
دونوں رہنماؤں نے بھارتی تہذیب کی تاریخی بنیادیں رکھیں۔ یہ بڑا اور عظیم الشان کام تھا۔
گاندھی جی اپنی تمام سرگرمیوں میں اولین ترجیح برطانوی راج کے خاتمے کو دیتے تھے۔
بھارت میں دیہاتی افراد کو معاشی، معاشرتی اور ثقافتی اعتبار سے باختیار بنانا، سیاسی طور پر باختیار بنانے کے برابر رہا ہے۔
مزید پڑھیں : گاندھی ہی عدم تشدد کے فلسفے کے بانی
گاندھی نے ایک جرأت مندانہ اور آزاد بھارت کی طرف فوری اور ضروری اقدام کے طور پر 'سوراج' (آزادی) کے حصول کو ترجیح دی۔
اس کے بالکل برعکس ٹیگور، سودیشی سماج کو بڑی حد تک ادب کی تخلیقی نمو اور ارتقاء کا معاملہ سمجھتے تھے، جو غیر ملکی اور گھریلو شہریوں کی موجودہ سیاسی تقسیم اور کشکمش سے آزاد تھا۔
اس حکمت عملی کے تحت گاندھی نے اپنے تمام ہم وطن نوجوانوں، خواتین اور بزرگوں سے عدم تعاون تحریک میں شامل ہونے اپیل کی۔
ٹیگور کو غیر ملکی معاشی استحصال اور برطانوی سامراج کے بارے میں تحفظات تھے۔
گاندھی اور ٹیگور ترقی پذیر عالمی ٹیکنالوجیز کے استعمال کے بارے میں اختلاف رائے رکھنے کے باوجود متفق تھے-
مزید پڑھیں : گاندھی جی اور پنڈت نہرو کی پہلی ملاقات
اس طرح کی کامیابی پر دونوں رہنماؤں کی خدمات کے اعتراف کے لیے پوری قوم کے اندر شعور بیدار کرنے کی ضرورت ہے۔
مشترکہ قوم پرستی پر زور اور جلیان والا باغ قتل عام کی مذمت پر گاندھی جی اور رابندر ناتھ ٹیگور کی رائے متفقہ طور پر ایک تھی۔
ٹیگور اور گاندھی جی اچھوت اور تفریق سے متعلق مظالم اور سرزنش کے مخالف تھے۔
مزید پڑھیں : 'دیہی ترقی کے لیے گاندھیائی تصور کی ضرورت'
علم اور تعلیم کے سلسلے میں گاندھیائی فکر اور ٹیگور کی شاعری میں یکسانیت ملتی ہے۔ دونوں شخصیات کی تعلیمات کا خلاصہ یہ ہے کہ تعلیم کو ترک کرکے کوئی قوم ترقی اور عروج کے منزلیں طئے نہیں کر سکتی ہیں۔
یہ دونوں عظیم رہنما تہذیب و تمدن کے سلسلے میں واضح نظریہ رکھتے تھے۔ جس سے آگے چل کر جدید بھارت کی تعمیر و ترقی میں بہت مدد ملی۔