قومی دارالحکومت دہلی کے کئی سرحدوں پر کسان تنظیمیں متنازع زرعی قوانین کے خلاف تقریباً 70 دنوں سے احتجاج و مظاہرہ کر رہی ہیں۔ کسان رہنماؤں اور حکومت کے مابین 11 دور کی بات چیت بھی ہوئی جس کا کوئی نتیجہ نہیں نکل سکا۔
26 جنوری کو کسانوں نے ٹریکٹر ریلی نکالی جس دوران تاریخی لال قلعے میں تشدد کے واقعات رونما ہوگئے۔ تشدد کے بعد مرکزی حکومت نے کسانوں کے ساتھ سختی شروع کردی اور آج حالات یہ ہیں کہ سنگھو بارڈر، ٹیکری بارڈر، غازی آباد بارڈر پر کسانوں کو چاروں طرف سے گھیرے میں لے لیا ہے۔ حالات یہ ہیں کہ کسانوں کی مدد کے لیے نہ تو اب کوئی وہاں پہنچ سکتا ہے اور نہ کسان ہی وہاں سے باہر نکل کر راشن پانی لے سکتے ہیں۔ ابھی بھی کسانوں کی حمایت میں ملک بھر سے کسانوں اور عام لوگوں کا ان بارڈروں پر پہنچنے کا سلسلہ جاری ہے اور اسی سلسلے کو ختم کرنے کے لیے پولیس نے چاروں طرف سے بیریکیڈ اور خاردار تاروں سے ان علاقوں کو گھیر لیا ہے۔
خاص طور پر غازی آباد میں بیٹھے کسانوں پر پولیس نے زیادہ سختی دکھائی ہے۔ یہاں پر کسان رہنما و مشترکہ کسان یونین کے ترجمان راکیش ٹکیت موجود ہیں جو فی الوقت کسانوں کے سب سے بڑے لیڈر ہیں۔ ان کی ہی اپیل پر ملک بھر کے کسان یہاں دوبارہ سے پہنچنا شروع ہوئے اور اس تحریک کو مزید مضبوط کیا۔
کسان احتجاج کی کچھ خاص باتیں۔۔۔۔
- زرعی قوانین کے خلاف احتجاج کر رہے کسانوں کا حقہ پانی بند کرنے کی قواعد جاری
- تینوں قوانین کی منسوخی پر اڑے کسانوں کو بیرونی حمایت حاصل نہ ہونے کی بھی کوششیں
- کسان جہاں جہاں دھرنا مظاہرہ کر رہے ہیں وہاں سکیورٹی کے سخت ترین انتظامات کیے گئے ہیں
- ارد گرد کے علاقوں سے لوگوں کے دھرنا میں شامل نہ ہونے کے لیے کیے جا رہے ہیں انتظامات
- خار دار تاروں اور بیریکیڈ سے راستہ روکنے کی کوشش
- دھرنا کی جگہ سے نہ تو کسان باہر نکل پا رہے ہیں اور نہ باہر کے کسان وہاں تک پہنچ پا رہے ہیں
- غازی آباد کو دہلی سے بالکل الگ تھلگ کر دیا گیا ہے
- غازی آباد بارڈر پر کسان رہنما راکیش ٹکیت جمے ہوئے ہیں
- راکیش ٹکیت نے اکتوبر تک دھرنا جاری رکھنے کا اعلان کیا ہے
- پوری دنیا سے کسانوں کی تحریک کی حمایت جاری ہے
- اعلی شخصیات ٹویٹ کرکے انہیں اپنی حمایت دینے کا اعلان کر رہی ہیں