آزادی سےلے کر اب تک نہ جانے یہ ملک کتنے رنگ و روپ میں سجا و ڈھلا ہے، لیکن ملک کی کچھ تعمیرات ایسی ہیں جو جدیدیت و ترقی کے متوازی چلنے کے ساتھ بھارتی تاریخ کے دامن کو پکڑے ہوئے ہیں۔ ان وراثتوں میں پیڑھیوں کی خوشبو اور ترقی کی نئی نشانیاں بسی ہوئی ہیں۔ ان وراثتوں میں سے ایک ورثے نے مغلوں کا عروج و زوال دیکھا، پھر بھارت کی سرزمین پر انگریز حکومت کے پرچم کو لہراتے دیکھا۔ سنہ 1887 کے انقلاب سے لے کر جنگ آزادی کا دور دیکھنے والا یہ ورثہ آج بھی روزمرہ کی زندگی سے وابستہ ہے۔ یہ منفرد ورثہ اور کوئی نہیں دہلی کا چاندنی چوک History Of Chandni Chowk ہے۔
یہ وہ چاندنی چوک ہے جس نے دہلی کو بنتے اور بگڑتے دیکھا ہے۔ کئی حکمراں آئے اور گئے لیکن چاندنی چوک کی چمک ہمیشہ برقرار رہی۔
مورخین بتاتے ہیں کہ شاہ جہاں کی بیٹی جہاں آرا Mughal emperor Shah Jahan Daughter Jahanara Begum نے پرانی دہلی میں چاندنی چوک بازار بسایا تھا جو بعد میں پورے علاقے کا ہی نام ہوگیا۔ ایسا نہیں ہے کہ یہاں صرف بازار تھا۔ جہاں آرا نے یہاں بہت سی عمارتیں، حمام، سرائے اور دیگر دوسری عمارتیں تعمیر کروائی تھیں، لیکن سنہ 1857 کے بغاوت کے بعد انگریزوں نے ان میں سے کچھ عمارتوں کو گرا کر ٹاؤن ہال اور گھنٹہ گھر جیسی عمارتیں تعمیر کروائیں۔
مغل بادشاہ شاہ جہاں کا دارالحکومت بدلنے کا خواب سنہ 1649 میں پورا ہوا۔ اس کے ٹھیک ایک سال بعد یعنی سنہ 1650 میں چاندنی چوک وجود میں آیا۔ لال قلعہ سے فتح پوری مسجد کی جس سڑک کو لوگ آج چاندنی چوک کے نام سے جانتے ہیں کسی زمانے میں وہاں سے جمنا کی ایک نہر نکلتی تھی۔ اس کے بعد جب سنہ 1911 میں انگریزوں نے دہلی کو اپنا دارالحکومت بنایا تب اسی نہر کی جگہ پر ٹرام چلنے لگی۔ملک کی تقسیم کے بعد دہلی آنے والے مہاجرین یہاں دکانیں لگانے لگے، جس کی وجہ سے اس کی معاشی اہمیت بڑھ گئی اور یہ رہائشی علاقہ نہیں رہا۔
لال قلعہ سے چاندنی چوک شروع ہوتا ہے اور پھر جین مندر، گوری شنکر مندر، گرودوارا شیش گنج سے ہوتے ہوئے فتح پوری مسجد تک کے احاطے کو یہ اپنے باہوں میں سمیٹے ہوئے ہے۔ چاندنی چوک تہذیب، ثقافت اور تاریخ کی مثال ہے۔ چاہے بلی مارن گلی ہو، کھاری باولی، کناری بازار، موتی بازار یا ذائقہ پسند لوگوں کی پسندیدہ جگہ پراٹھے والی گلی، یہ سب چاندنی چوک کا انمول حصہ ہیں۔
یہاں موجود مختلف دکانیں چاندنی چوک کے رونق میں اضافہ کرتی ہیں۔ اس کی ثقافتی پہچان اسے منفرد بناتی ہیں۔ اردو کے مشہور شاعر مرزا غالب کا تعلق بھی چاندنی چوک سے متصل بلی ماران علاقے سے تھا۔
کوئی بھی شہر جتنا پرانا ہوتا جاتا ہے، اس میں زمانے کے ساتھ تبدیلی واقع ہونا ظاہری اور فطری بات ہے۔ سنہ 1857 کے انقلاب کے بعد ہوئی تبدیلیوں کا گواہ رہا دہلی کا چاندنی چوک آج ایک ایسا تاریخی ورثہ ہے جس نے غلامی کا دور دیکھا، آزادی کی سنہری صبح دیکھی اور آج بھی دہلی ہی نہیں بلکہ ملک کے ثقافتی ورثہ کو آنچل سے سمیٹے ہوئے ہے۔دہلی کو اپنے اس ورثے پر فخر ہے۔
مزید پڑھیں: