ETV Bharat / state

'جمیعت علماء ہند' کے 100 برس مکمل - 100 برس مکمل ہونے پر صد سالہ تقریبات کا انعقاد کیا جا رہا ہے

شاہ عبد العزیزؒ نے انگریزوں کے خلاف جب جنگ کا فتویٰ دیا تھا،وہیں سے جمیعت علماء ہند کی تشکیل شروع ہوگئی تھی، 1919 میں خلافت کانفرنس کے دوران شیخ الہند محمودالحسن کی قیادت میں اس جماعت کا نام جمیعت علماء ہند رکھا گیا، اس کے پہلے صدر مفتی کفایت اللہ منتخب ہوئے۔

'جمیعت علماء ہند' کے 100 برس مکمل
'جمیعت علماء ہند' کے 100 برس مکمل
author img

By

Published : Dec 6, 2019, 6:10 PM IST

Updated : Dec 6, 2019, 8:42 PM IST

دہلی کی مصروف ترین شاہراہ بہادرشاہ ظفرمارگ پر پولیس کے مرکزی ہیڈکوارٹر سے متصل مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم جمیعت علماء ہند کا دفتر واقع ہے۔

جمیعت کی تاریخ سو سالہ قدیم ہے اس کے رضا کاروں نے بھارت کی آزادی کے لیے اپنا تن من دھن سب قربان کردیا۔

دینی طبقات میں یہ واحد جماعت ہے جس نے عدم تشدد پر مبنی پر امن سیاسی جدوجہد کی راہ اپنائی۔

جمیعت علماءہند کے 100 برس مکمل ہونے پر صد سالہ تقریبات کا انعقاد کیا جا رہا ہے ۔ اس تقریب کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے لیے باقاعدہ ایک میوزیم کی تعمیر کی گئی ہے۔ یہ میوزیم جمعیت علماء کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ جس میں آزادی کی لڑائی میں جمیعت کی قربانیوں سے متعلق جھلکیوں کا منظر نامہ پیش کیا جائے گا۔

'جمیعت علماء ہند' کے 100 برس مکمل۔ویڈیو

تقریبا 100 برس قبل آٹھ جون 1920 کو جمیعت کے بانی شیخ الہند مولانا محمود حسن اور ان کے رفقاء مالٹا کی قید سے واپس آتے ہیں اورخودمہاتما گاندھی ان کا استقبال کرتے ہیں۔ جس کے بعد شیخ الہند ملک کی تحریک آزادی سے جڑ جاتے ہیں۔

جمیعت خلافت کمیٹی، ترک موالات اور عدم تعاون کی تحریک کے ساتھ کھڑی رہتی ہے، حکومت برطانیہ کے تمام تر تعلقات کو حرام قرار دے دیا جاتا ہے۔

جمیعت کے صدر مولانا ارشد مدنی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ جمیعت کو گزشتہ 100 برسوں کے دوران مختلف چیلنجز کا سامنارہا لیکن مسلمانوں کی مذہبی و ملّی مشکلات کے حل کی قیادت ترک نہیں کی۔

لیکن تقسیم ہند کے وقت جمیعت بڑی دشواریوں میں پھنس گئی۔ وطن کی محبت اور مستقبل کی سوچ کے ساتھ جمیعت نے تقسیم او رپاکستان کے قیام کی مخالفت کی، جس کے جمیعت کے ذمہ داروں کوذلیل وخوار بھی کیا گیا۔

اس دوران جمیعت علماء ہند فرقہ پرستوں سے مقابلہ اور فرقہ وارانہ فساد متاثرین کی باز آبادکاری میں مصروف ہو گئی ابھی یہ سلسلہ تھما نہیں تھا کہ مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزامات میں جوڑنے کے واقعات سے جمیعت کو نئے چیلنجز کا سامنا ہوا۔ جمیعت ان کی وکالت میں سیدھے طور پر میدان میں اتر گئی۔

جمیعت علماء کی تاریخ داخلی اختلافات سے پر رہی ہے، تقسیم سے پہلے جب جمیعت نے تقسیم ہند کی مخالفت اور پاکستان کا کے بجائے بھارت کی حمایت کی تو جمیعت دوحصوں میں منقسم ہوگئی۔ علامہ شبیر احمد عثمانی جمیعت علماء پاکستان کے صدر بنائے گئے جبکہ جمیعت علما ہند کے سربراہ مولانا سید حسین احمد مدنی ہوئے۔

دونوں شخصیات شیخ الہند مولانا محمود حسن کے مایہ ناز شاگرد اور دارالعلوم دیوبند کے سپوت تھے، اس اختلاف کے علاوہ جتنے بھی اختلاف رہے، سب نے بدنامیاں پھیلائیں۔

چھ مارچ 2008 میں مولانا ارشدمدنی اور ان کے بھتیجے میں اختلاف کے بعد دو حصوں میں بٹی ہوئی جمعیت ایک بار پھر سے دو ٹکڑوں بٹ گئی۔ اور دس برس تک یہ معاملہ عدالت میں رہا لیکن 2018 میں مصالحت ہوئی اورباہم تعاون سے دوتنظیمیں ایک نام پرچلنے لگیں۔

دہلی کی مصروف ترین شاہراہ بہادرشاہ ظفرمارگ پر پولیس کے مرکزی ہیڈکوارٹر سے متصل مسلمانوں کی سب سے بڑی تنظیم جمیعت علماء ہند کا دفتر واقع ہے۔

جمیعت کی تاریخ سو سالہ قدیم ہے اس کے رضا کاروں نے بھارت کی آزادی کے لیے اپنا تن من دھن سب قربان کردیا۔

دینی طبقات میں یہ واحد جماعت ہے جس نے عدم تشدد پر مبنی پر امن سیاسی جدوجہد کی راہ اپنائی۔

جمیعت علماءہند کے 100 برس مکمل ہونے پر صد سالہ تقریبات کا انعقاد کیا جا رہا ہے ۔ اس تقریب کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے لیے باقاعدہ ایک میوزیم کی تعمیر کی گئی ہے۔ یہ میوزیم جمعیت علماء کے جنرل سکریٹری مولانا محمود مدنی کی کاوشوں کا نتیجہ ہے۔ جس میں آزادی کی لڑائی میں جمیعت کی قربانیوں سے متعلق جھلکیوں کا منظر نامہ پیش کیا جائے گا۔

'جمیعت علماء ہند' کے 100 برس مکمل۔ویڈیو

تقریبا 100 برس قبل آٹھ جون 1920 کو جمیعت کے بانی شیخ الہند مولانا محمود حسن اور ان کے رفقاء مالٹا کی قید سے واپس آتے ہیں اورخودمہاتما گاندھی ان کا استقبال کرتے ہیں۔ جس کے بعد شیخ الہند ملک کی تحریک آزادی سے جڑ جاتے ہیں۔

جمیعت خلافت کمیٹی، ترک موالات اور عدم تعاون کی تحریک کے ساتھ کھڑی رہتی ہے، حکومت برطانیہ کے تمام تر تعلقات کو حرام قرار دے دیا جاتا ہے۔

جمیعت کے صدر مولانا ارشد مدنی نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ جمیعت کو گزشتہ 100 برسوں کے دوران مختلف چیلنجز کا سامنارہا لیکن مسلمانوں کی مذہبی و ملّی مشکلات کے حل کی قیادت ترک نہیں کی۔

لیکن تقسیم ہند کے وقت جمیعت بڑی دشواریوں میں پھنس گئی۔ وطن کی محبت اور مستقبل کی سوچ کے ساتھ جمیعت نے تقسیم او رپاکستان کے قیام کی مخالفت کی، جس کے جمیعت کے ذمہ داروں کوذلیل وخوار بھی کیا گیا۔

اس دوران جمیعت علماء ہند فرقہ پرستوں سے مقابلہ اور فرقہ وارانہ فساد متاثرین کی باز آبادکاری میں مصروف ہو گئی ابھی یہ سلسلہ تھما نہیں تھا کہ مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزامات میں جوڑنے کے واقعات سے جمیعت کو نئے چیلنجز کا سامنا ہوا۔ جمیعت ان کی وکالت میں سیدھے طور پر میدان میں اتر گئی۔

جمیعت علماء کی تاریخ داخلی اختلافات سے پر رہی ہے، تقسیم سے پہلے جب جمیعت نے تقسیم ہند کی مخالفت اور پاکستان کا کے بجائے بھارت کی حمایت کی تو جمیعت دوحصوں میں منقسم ہوگئی۔ علامہ شبیر احمد عثمانی جمیعت علماء پاکستان کے صدر بنائے گئے جبکہ جمیعت علما ہند کے سربراہ مولانا سید حسین احمد مدنی ہوئے۔

دونوں شخصیات شیخ الہند مولانا محمود حسن کے مایہ ناز شاگرد اور دارالعلوم دیوبند کے سپوت تھے، اس اختلاف کے علاوہ جتنے بھی اختلاف رہے، سب نے بدنامیاں پھیلائیں۔

چھ مارچ 2008 میں مولانا ارشدمدنی اور ان کے بھتیجے میں اختلاف کے بعد دو حصوں میں بٹی ہوئی جمعیت ایک بار پھر سے دو ٹکڑوں بٹ گئی۔ اور دس برس تک یہ معاملہ عدالت میں رہا لیکن 2018 میں مصالحت ہوئی اورباہم تعاون سے دوتنظیمیں ایک نام پرچلنے لگیں۔

Intro:Body:

zsdaf


Conclusion:
Last Updated : Dec 6, 2019, 8:42 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.