ETV Bharat / state

Uniform Civil Code 'بھارت میں یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ دستور کے خلاف اور ناقابل قبول ہے'

گزشتہ دنوں راجیہ سبھا میں یونیفارم سول کوڈ پیش کیے جانے کے بعد سے ایک مرتبہ پھر اس کی مخالفت شروع ہوگئی ہے، علماء و سیاسی رہنماؤں نے یونیفارم سول کوڈ پر اپنے ردعمل کا اظہار کیا ہے۔ Uniform Civil Code

بھارت میں یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ دستور کے خلاف اور ناقابل قبول ہے
بھارت میں یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ دستور کے خلاف اور ناقابل قبول ہے
author img

By

Published : Dec 11, 2022, 8:37 AM IST

پٹنہ : گزشتہ دنوں راجیہ سبھا میں یونیفارم سول کوڈ پیش کیے جانے کے بعد ایک مرتبہ پھر سے اس کی مخالفت شروع ہو گئی ہے۔ مرکزی بی جے پی حکومت پہلے ہی اعلان کر چکی ہے کہ وہ دونوں ایوانوں سے اس بل کو پاس کر کے ملک میں ایک قانون نافذ کریں گے کیونکہ دونوں ایوانوں میں ان کی اکثریت ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا جس ملک میں مختلف مذاہب کے ماننے والے اور مختلف کلچر کے رہنے والے لوگ اس بل کی حمایت کریں گے؟ کیوں کہ اگر ملک میں سول کوڈ کا نفاذ عمل میں آتا ہے تو پھر مختلف مذاہب کے تشخص اس کے زد میں آئیں گے جس سے مذہبی رواداری ختم ہو جائے گی۔

یونیفارم سول کوڈ پر رد عمل

امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ کے نائب امیر شریعت مولانا شمشاد رحمانی قاسمی نے کہا کہ یونیفارم سول کوڈ مختلف وجوہات سے ہمارے ملک کے لیے مناسب نہیں ہے، ایک تو اس سے اقلیتوں کے مذہبی حقوق متاثر ہوں گے جو دستور کی بنیادی روح کے خلاف ہے، دوسرے یکساں قانون ایسے ملک کے لیے تو مناسب ہوسکتا ہے جس میں ایک ہی مذہب کے ماننے والے اور ایک ہی تہذیب سے تعلق رکھنے والے لوگ بستے ہوں لیکن بھارت ایک تکثیری سماج کا حامل ملک ہے، جس میں مختلف مذاہب کے ماننے والے اور مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ پائے جاتے ہیں، یہاں کثرت میں وحدت ہی اس کا اصل حسن اور اس کی پہچان ہے، ایسے ملک کے لیے یکساں عائلی قوانین قابل عمل نہیں ہیں۔ Ulema And Political Leaders Oppose Uniform Civil Code

جے ڈی یو کے سینئر لیڈر و سابق مرکزی وزیر محمد علی اشرف فاطمی نے کہا کہ سول کوڈ نافذ کرنے کا معاملہ بہت پرانا ہے، بھاجپا کے لوگ ہمیشہ اسے موضوع بناتے رہے ہیں، معاملہ یہ ہے کہ ہندوستان میں بسنے والا کوئی بھی سچا مذہبی شخص اپنا نقصان تو برداشت کرسکتا ہے لیکن مذہب پر آنچ کو برداشت نہیں کرسکتا اس لیے اگر کسی طبقہ کے مذہبی قوانین کو مسخ کرنے کی کوشش ہو گی تو اس سے مایوسی کے احساسات اور بغاوت کے جذبات پیدا ہوں گے اور یہ ملک کی سالمیت کے لیے نقصان دہ ہے۔ میرے خیال سے ہمارے ملک میں سول کوڈ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ Ulema And Political Leaders Oppose Uniform Civil Code

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن مولانا انیس الرحمٰن قاسمی نے کہا کہ یہ منصوبہ بند طریقے سے بی جے پی والوں کی ایک سازش ہے چونکہ ان کے سامنے 2024 کا انتخاب سامنے ہے، حالانکہ کمیشن لاء بھی کہہ چکی ہے کہ ابھی ہندوستان میں سول کوڈ کی کوئی ضرورت نہیں ہے، باوجود اسے ایشو بنایا جا رہا ہے تاکہ ملک میں بدامنی پھیلے جس کا فائدہ بھاجپا اٹھا سکے. اسی ملک میں جب انتخاب میں یکسانیت نہیں ہے، مختلف ریاستوں کے قانون میں یکسانیت نہیں ہے تو بھلا ملکی سطح پر کیسے یکسانیت ہوگی وہ بھی جب یہاں بڑی تعداد میں سیکھ، عیسائی، بودھ، جین اور مسلمان رہتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مختلف گروہوں کو اپنے اپنے قوانین پر عمل کی اجازت دینا ملک کے مفاد میں ہے، اس سے قومی یکجہتی پروان چڑھے گی، نہ یہ کہ اس کو نقصان پہنچے گا۔ Reaction On Uniform Civil Code

یہ بھی پڑھیں : UCC Harmful for Country یکساں سول کوڈ ملک کے لیے نقصاندہ ہے، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

پٹنہ : گزشتہ دنوں راجیہ سبھا میں یونیفارم سول کوڈ پیش کیے جانے کے بعد ایک مرتبہ پھر سے اس کی مخالفت شروع ہو گئی ہے۔ مرکزی بی جے پی حکومت پہلے ہی اعلان کر چکی ہے کہ وہ دونوں ایوانوں سے اس بل کو پاس کر کے ملک میں ایک قانون نافذ کریں گے کیونکہ دونوں ایوانوں میں ان کی اکثریت ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا جس ملک میں مختلف مذاہب کے ماننے والے اور مختلف کلچر کے رہنے والے لوگ اس بل کی حمایت کریں گے؟ کیوں کہ اگر ملک میں سول کوڈ کا نفاذ عمل میں آتا ہے تو پھر مختلف مذاہب کے تشخص اس کے زد میں آئیں گے جس سے مذہبی رواداری ختم ہو جائے گی۔

یونیفارم سول کوڈ پر رد عمل

امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ کے نائب امیر شریعت مولانا شمشاد رحمانی قاسمی نے کہا کہ یونیفارم سول کوڈ مختلف وجوہات سے ہمارے ملک کے لیے مناسب نہیں ہے، ایک تو اس سے اقلیتوں کے مذہبی حقوق متاثر ہوں گے جو دستور کی بنیادی روح کے خلاف ہے، دوسرے یکساں قانون ایسے ملک کے لیے تو مناسب ہوسکتا ہے جس میں ایک ہی مذہب کے ماننے والے اور ایک ہی تہذیب سے تعلق رکھنے والے لوگ بستے ہوں لیکن بھارت ایک تکثیری سماج کا حامل ملک ہے، جس میں مختلف مذاہب کے ماننے والے اور مختلف ثقافتوں سے تعلق رکھنے والے لوگ پائے جاتے ہیں، یہاں کثرت میں وحدت ہی اس کا اصل حسن اور اس کی پہچان ہے، ایسے ملک کے لیے یکساں عائلی قوانین قابل عمل نہیں ہیں۔ Ulema And Political Leaders Oppose Uniform Civil Code

جے ڈی یو کے سینئر لیڈر و سابق مرکزی وزیر محمد علی اشرف فاطمی نے کہا کہ سول کوڈ نافذ کرنے کا معاملہ بہت پرانا ہے، بھاجپا کے لوگ ہمیشہ اسے موضوع بناتے رہے ہیں، معاملہ یہ ہے کہ ہندوستان میں بسنے والا کوئی بھی سچا مذہبی شخص اپنا نقصان تو برداشت کرسکتا ہے لیکن مذہب پر آنچ کو برداشت نہیں کرسکتا اس لیے اگر کسی طبقہ کے مذہبی قوانین کو مسخ کرنے کی کوشش ہو گی تو اس سے مایوسی کے احساسات اور بغاوت کے جذبات پیدا ہوں گے اور یہ ملک کی سالمیت کے لیے نقصان دہ ہے۔ میرے خیال سے ہمارے ملک میں سول کوڈ کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ Ulema And Political Leaders Oppose Uniform Civil Code

آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے رکن مولانا انیس الرحمٰن قاسمی نے کہا کہ یہ منصوبہ بند طریقے سے بی جے پی والوں کی ایک سازش ہے چونکہ ان کے سامنے 2024 کا انتخاب سامنے ہے، حالانکہ کمیشن لاء بھی کہہ چکی ہے کہ ابھی ہندوستان میں سول کوڈ کی کوئی ضرورت نہیں ہے، باوجود اسے ایشو بنایا جا رہا ہے تاکہ ملک میں بدامنی پھیلے جس کا فائدہ بھاجپا اٹھا سکے. اسی ملک میں جب انتخاب میں یکسانیت نہیں ہے، مختلف ریاستوں کے قانون میں یکسانیت نہیں ہے تو بھلا ملکی سطح پر کیسے یکسانیت ہوگی وہ بھی جب یہاں بڑی تعداد میں سیکھ، عیسائی، بودھ، جین اور مسلمان رہتے ہیں۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ مختلف گروہوں کو اپنے اپنے قوانین پر عمل کی اجازت دینا ملک کے مفاد میں ہے، اس سے قومی یکجہتی پروان چڑھے گی، نہ یہ کہ اس کو نقصان پہنچے گا۔ Reaction On Uniform Civil Code

یہ بھی پڑھیں : UCC Harmful for Country یکساں سول کوڈ ملک کے لیے نقصاندہ ہے، مولانا خالد سیف اللہ رحمانی

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.