پٹنہ: قدآور صحافی، متعدد کتابوں کے مصنف، اردو تحریک کے روح رواں، عوامی اردو نفاذ کمیٹی کے سربراہ اور عظیم آباد کی صحافتی دنیا کا معتبر نام اشرف استھانوی آج سینکڑوں اشکبار آنکھوں کے درمیان اپنے آبائی وطن نالندہ ضلع کے استھانواں گاؤں میں سپرد خاک ہو گئے۔ نماز جنازہ دو جگہ ادا کی گئی۔ پہلی نماز پٹنہ کے فقیر باڑہ مسجد کے میدان میں ادا کی گئی۔ نماز جنازہ مولانا عتیق اللہ قاسمی نے پڑھائی۔ یہاں ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں اور سرکردہ شخصیات نے شرکت کی اور مرحوم کے لیے مغفرت کی دعا کی۔ اس کے بعد جنازہ ان کے آبائی وطن لے جایا گیا، یہاں مدرسہ محمدیہ کے احاطہ میں بھی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ پھر اہل خانہ کی موجودگی میں مقامی ڈھبری قبرستان (دیسنہ روڈ) میں تدفین عمل میں آئی۔ اشرف استھانوی کافی دنوں سے صاحب فراش تھے۔ ان کی عمر تقریباً 55 سال تھی۔ Ashraf Asthanwi Passed Away
اشرف استھانوی کے انتقال پر بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار و نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو نے اظہار تعزیت کرتے ہوئے اسے اردو صحافت کا بہت بڑا خسارا قرار دیا۔ نتیش کمار نے اپنے تعزیتی پیغام میں کہا کہ وہ ایک بے باک صحافی اور بہترین مقرر تھے۔ اردو کے مسائل پر وہ ہم لوگوں کی توجہ مبذول کراتے تھے۔ ان کے انتقال سے پوری اردو آبادی سوگوار ہے۔ نائب وزیر اعلیٰ تیجسوی یادو نے اپنے پیغام میں کہا کہ اشرف استھانوی صاحب اردو کے بڑے صحافی تھے۔ وہ نیک دل انسان اور طبیعت کے ملنسار تھے۔ ایک لمبی مدت تک انہوں نے اردو صحافت کے ساتھ ہندی صحافت میں بھی کام کیا۔ ان کے انتقال سے اردو صحافت کو نقصان ہوا ہے۔
اشرف استھانوی کے انتقال پر متعدد ادبی، سماجی، صحافتی اور مذہبی لوگوں نے اظہار تعزیت کی ہے۔ بی پی ایس سی کے رکن امتیاز احمد کریمی نے کہا کہ اشرف استھانوی نے اپنی صحافت، کالم نویسی اور عالمانہ انداز بیان سے ادبی و صحافتی دنیا میں اپنی منفرد شناخت و پہچان بنائی تھی۔ ملک کے مؤقر اخبارات و رسائل میں ان کے مضامین اور کالم تواتر کے ساتھ شائع ہوتے تھے اور بے حد پسند کیے جاتے تھے۔ وہ اردو کے ساتھ ہندی اخبارات میں بھی کالم لکھا کرتے تھے اور اس طرح وہ اردو اور ہندی صحافت میں اپنے مضامین اور کالم کے ذریعے ملک و سماج کی سچی تصویر پیش کرتے تھے اور ارباب اقتدار کو آئینہ بھی دکھلایا کرتے تھے۔
صحافی راشد احمد نے اظہار تعزیت کرتے ہوئے کہا کہ وہ پچھلی کئی دہائیوں سے صحافت سے وابستہ تھے۔ وہ صحافی ہونے کے ساتھ ایک اچھے انسان بھی تھے۔ ہمیشہ مسکرا کر اور خندہ پیشانی سے ملاقات کرتے۔ انہوں نے کبھی صحافتی اصولوں سے سمجھوتہ نہیں کیا، حق بات ہو تو منھ پر بولتے۔ اس سے لوگ برا بھی مانتے مگر وہ اپنے اصولوں پر ڈٹے رہتے۔ سابق رکن اسمبلی ڈاکٹر اظہار احمد نے کہا کہ اشرف استھانوی سے میرے پچیس تیس سال کی رفاقت تھی۔ وہ ایک بے باک اور نڈر صحافی تھے، حکومت وقت کے آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا اور منوانا جانتے تھے، بغیر کسی لاگ لپیٹ کے صاف گوئی سے بات کرتے، اب ایسے صحافی نظر نہیں آتے۔ ڈاکٹر انوار الہدی نے کہا کہ اشرف استھانوی کی کئی ملی، سماجی، ثقافتی اور فلاحی تنظیموں سے بھی وابستگی تھی، وہ اخبار و رسائل کے علاوہ ان پلیٹ فارم سے بھی قوم و ملت کی آواز بلند کرتے تھے۔ اردو زبان کے فروغ اور اس کے عملی نفاذ کیلئے ان کی جدو جہد قابل ستائش تھی۔
مزید پڑھیں:Ashraf Asthanwi Passed Away مشہور صحافی اشرف استھانوی کا انتقال، صحافتی حلقوں میں غم کی لہر