عرفان کے بھائی نے کہا کہ عرفان کو دن کے پونے ایک بجے اٹھایا گیا جبکہ مجھے چار بجے اٹھایا گیا اور وہاں ہمیں کہا گیا کہ آپ کا راز فاش ہوگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ میرے ساتھ صبح سے شام تک دکان پر کام کرتا تھا اور میرے ساتھ ہر مسئلے کو شیئر کرتا تھا۔
بتادیں کہ شمالی کشمیر کے قصبہ سوپور میں پولیس حراست کے دوران عرفان احمد ڈار کی پراسرار موت واقع ہوئی ہے جس کے خلاف بدھ کے روز سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں نے احتجاجی مظاہرے کئے۔
پولیس کا کہنا ہے 'عسکریت پسندوں کے اعانت کار عرفان احمد ڈار کی لاش کو تجر شریف میں ایک پتھر کی کان کے قریب برآمد کیا گیا جہاں وہ پولیس کی ایک چھاپہ مار ٹیم کو چکمہ دیکر رات کی تاریکی کا فائدہ اٹھا کر بھاگنے میں کامیاب ہوا تھا'۔
جاوید احمد ڈار نے بدھ کے روز اپنے گھر کے باہر خواتین کی آہ و فغان کے بیچ میڈیا کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا 'مکان میں سی سی ٹی وی کمیرے لگے ہیں ڈیڑھ ماہ کی فوٹیج چیک کریں اور اس کے علاوہ میرے اور میرے بھائی کے موبائل فونز کو چیک کریں اگر کچھ نکلا تو جو چاہیں ہمارے ساتھ کریں'۔
انہوں نے کہا 'عرفان کو دن کے پونے ایک بجے اٹھایا گیا جبکہ مجھے چار بجے اٹھایا گیا اور وہاں ہمیں کہا گیا کہ آپ کا راز فاش ہوگیا ہے'۔
جاوید نے کہا کہ عرفان میرا بھائی ہی نہیں بلکہ میرا دوست تھا۔
ان کا کہنا تھا 'عرفان میرا بھائی ہی نہیں بلکہ میرا دوست بھی تھا وہ میرے ساتھ ہر بات اور ہر مسئلہ شیئر کرتا تھا، وہ صبح سات بجے سے شام نو دس بجے تک دکان پر کام کرتے تھے'۔
موصوف نے کہا کہ دس روز قبل ہمارے گھر کی تلاشی کی گئی لیکن کچھ بھی برآمد نہیں کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیے
سوپور : نوجوان کی ہلاکت کا پولیس پر الزام
انہوں نے کہا 'دس روز قبل ہمارے گھر کا کارڈن کیا گیا، کوئی الماری، کوئی چیز ٹھیک نہیں ہے، ہم نے ان سے کہا کہ آپ کیمرہ چیک کریں اور دیکھیں کہ یہاں کون آتا جاتا ہے، یہاں کچھ بھی برآمد نہیں کیا گیا'۔
موصوف نے کہا کہ میں بہت بیمار تھا جس کی وجہ سے مجھے چھوڑ دیا گیا۔