ان میں سے بیشتر مزدوروں کے پاس پیسہ اور دیگر اشیائے خوردنی ختم ہوگئی ہیں اور وہ اپنے آبائی وطن واپس جانے کے لیے بے چین ہیں.
کورونا وائرس کی وبا پر قابو پانے کے لیے نافذ لاک ڈاؤن کے سبب جموں و کشمیر میں پھنسے ہزاروں غیر مقامی مزدور ان دنوں شدید مشکلات سے دوچار ہیں، بھلے ہی سرکار کی جانب سے ان کے لیے امداد رسانی کی کوششیں جاری ہیں تاہم گھروں سے ہزاروں کلومیٹر دور کام ڈھونڈنے کے لیے نکلے یہ مزدور اپنے مستقبل کو لیکر کافی پریشان ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ غربت و افلاس نے انہیں پہلے ہی اپنے گھروں سے دور مزدوری کرنے کے لیے دھکیل دیا تھا اور وہ یہاں مزدوری کرکے پیسہ کماتے تھے اور بعد میں وہ گھر بھیجتے تھے لیکن کورونا وائرس کی وباء اور اس سلسلے میں جاری لاک ڈاؤن کی وجہ سے وہ مزید پیچھے چلے گئے ہیں، ادھر گھر والے بھی پریشان ہیں ادھر خود بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑرہا ہے
محکمہ جموں و کشمیر کے لیبر ڈیپارٹمنٹ کی ایک سروے کے مطابق اس وقت میں 55 ہزار سے زائد غیر کشمیری مزدور جموں و کشمیر یونین ٹیریٹریری میں موجود ہیں۔
ملک بھر میں جاری لاک ڈاؤن کی وجہ سے حکومت نے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اعلان کیا ہے وہ اپنے آبائی گھروں کو واپس نہیں جاسکتے ہیں
ادھر ان مزدوروں میں سے بیشتر افراد کے پاس پیسے اور کھانے پینے کی اشیاء ضروریہ ختم ہوگئی ہیں جس کی وجہ سے وہ مزید مشکل حالات سے گزر رہے ہیں۔
بنگال سے تعلق رکھنے والے شعیب الحسن کا کہنا ہے کہ ان کے پاس جو بھی بچی کچھی پونجی تھی وہ دھیرے دھیرے ختم ہوگئی اور اب وہ محتاجی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے ہیں -
ریاست ہرنانہ کے پانی پت کے رہنے والے دیپک سنگھ نامی ایک اور مزدور ایک ماہ قبل کام کرنے کی غرض سے سرینگر آئے تھے تاہم لاک ڈاؤن نے ان کی امیدوں پہ پانی پھیر دیا اور اب اسے بے بسی اور مجبوری کے سوا کچھ نظر نہیں آتا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ حکومت کی جانب سے سرینگر اور دیگر اضلاع میں پھنسے ان ہزاروں مزدوروں کی امداد کے لیے کوششیں جاری ہیں اور انہیں راشن و دیگر اشیائےخوردنی مہیا کرائیں جارہی ہے جموں و کشمیر کے لیبر ڈیپارٹمنٹ نےپہلے ہی یہاں پھنسے ہوئے مزدوروں کی مدد کے لیے ہیلپ لائن قائم کی ہوئی ہیں اور اس سے قبل جموں و کشمیر میں غیر مقامی مزدوروں کی صحیح تعداد جاننے کے لیے ایک سروے بھی کی ہے تاکہ کسی بھی جگہ کسی بھی ایسے غیر کشمیری مزدور کو بھوکا نہ رہنا پڑے۔
اس کے علاوہ انہیں مدد کرنے کے لیے انتظامیہ کی جانب سے اکاؤنٹ نمبرات بھی طلب کئے جارہے ہیں، ادھر فوج اور پولیس نے بھی کئی مقامات پر ان پھنسے مزدوروں کو وقتاً فوقتاً مختلف طریقوں سے کھانے پینے کی اشیاء فراہم کی ہیں۔
حالیہ دنوں سرینگر کے علمگری بازار میں 50 کے قریب پھنسے غیر مقامی مزدوروں نے ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر ڈالا جس میں انہوں اس بات کا دعویٰ کیا کہ ان کے پاس کھانے پینے کے لیے کچھ بھی موجود نہیں ہے ۔
ویڈیو وائرل ہونےکے فوراً بعد کئی مقامی غیر سرکاری ادارے ان کی امداد کو پہنچے اور انہیں اشیاء خوردنی فراہم کرائیں، تاہم اس کے باوجود اکثر مزدوروں کا مطالبہ ہے کہ وہ اپنے گھروں کو واپس لوٹنا چاہتے ہیں -
ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہیں ایسے مزدوروں کا کہنا تھا کہ وہ یہاں کب تک ایسی ہی مجبوری میں زندگی گزاریں گے ان کا کہنا ہے کہ یہاں رہنے اور بھوک سے مرنے کی بجائے اپنےگھر واپس جانا بہتر ہے۔
ان کا ماننا ہے کہ ابھی تک کچھ اگر چہ انتظامیہ و دیگر ادارے کھانا مہیا کرارہے ہیں لیکن لاک ڈاؤن میں کتنا عرصہ لے گا یہ بات ان کے لیے ذہنی پریشانی کا سبب بن رہا ہے -
دریں اثناء مرکزی حکومت نے لاک ڈاؤن کی مدت میں مزید توسیع کرکے اسے 3 مئی تک بڑھا دیا ہے اور ہوائی سفر پر پابندی میں 3 مئی تک توسیع کردی ہے جس کی وجہ سے ان غیر مقامی مزدوروں کو مزید دھچکا لگا ہے اور ان کے گھروں کو واپس لوٹنے کی امیدیں بھی فلحال ختم ہوتی جارہی ہیں۔