ETV Bharat / state

Manipur Ki Baat من کی بات نہیں ہم منی پور کی بات سننا چاہتے ہیں: گیارہ سالہ ماحولیاتی کارکن کا پی ایم مودی کو ٹویٹ - ماحولیاتی کارکن لِسیپریا کنگوجم

منی پور کی صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے میتھئی قبیلے کی ایک 11 سالہ بھارتی ماحولیاتی کارکن نے وزیراعظم نریندر مودی کو ٹویٹ کیا ہے۔ اپنے ٹویٹ میں انھوں نے کہا کہ پی ایم نریندر مودی جی، ہم آپ کی من کی بات نہیں سننا چاہتے، ہم منی پور کی بات سننا چاہتے ہیں، ہم واقعی میں مر رہے ہیں۔

Etv Bharat
Etv Bharat
author img

By

Published : Jul 30, 2023, 9:03 PM IST

تیز پور (آسام): منی پور میں میتھئی قبیلے سے تعلق رکھنے والی 11 سالہ بھارتی ماحولیاتی کارکن لیسیپریا کنگوجم نے ریاست کے اہم مسائل پر اپنے تحفظات کا اظہار کرنے اور منی پور کی بات کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا ہے۔ انھوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کی 'من کی بات' کے بجائے 'منی پور کی بات' کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اتوار کو ایک ٹویٹ میں، لیسیپریا نے اپنے ٹویٹ میں کہا، "پیارے پی ایم نریندر مودی جی، ہم آپ کی من کی بات نہیں سننا چاہتے، ہم منی پور کی بات سننا چاہتے ہیں۔ ہم واقعی میں مر رہے ہیں۔

منی پور میں جاری نسلی تشدد کے درمیان ماحولیاتی کارکن نے ریاست کو درہم برہم کرنے کی کوشش کرنے والی بیرونی طاقتوں کے خلاف زبردست احتجاج کے دوران لوگوں کو متحد کرنے کے لیے پی ایم مودی پر طنز بھی کسا۔ ایک اور ٹویٹ میں لیسیپریا نے کہا کہ امپھال میں ہونے والے اس احتجاج میں 3 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے شرکت کی، جو خطے میں امن اور استحکام کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس نے لکھا کہ "منی پور کو توڑنے کے لیے بیرونی طاقتوں کی مداخلت کے خلاف آج امپھال میں زبردست احتجاج شروع ہوا۔ 3 لاکھ سے زیادہ لوگ اس میں شامل ہوئے۔ منی پور ایک ہے اور ہم متحد ہیں! شکریہ مودی جی ہمیں متحد کرنے کے لیے!"

تاہم نوجوان کارکن نے منی پور میں پناہ گاہوں کا دورہ کرنے والے حزب اختلاف کے رہنماؤں پر بھی تنقید کی اور اس بات پر زور دیا کہ وہ صرف تصویر کے مواقع اور سوشل میڈیا پر تشہیر کے لیے متاثرین کا استعمال کر رہے ہیں۔ لیسیپریا کے مطابق اپوزیشن لیڈروں کی طرف سے ہمارے دکھ درد کو کم کرنے یا منی پور کی پہاڑیوں اور وادیوں میں ہونے والے تشدد کو روکنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔ چونکہ صورت حال بدستور کشیدہ ہے، خاص طور پر چورا چند پور، چنڈال اور کانگ پوکپی اضلاع میں، اس علاقے میں تعینات آسام رائفلز فورس کے لیے سیکورٹی کی صورتحال غیر یقینی ہے۔حملوں کا خوف منڈلاتا رہتا ہے، جس کی وجہ سے انہیں رات کو زمین پر سونا پڑتا ہے، اور اس بات کا یقین نہیں رکھتے کہ گولیاں کب لگ سکتی ہیں۔

  • Politicians visiting Manipur are doing nothing. They’re just going to have photos and videos with the victims in the relief camp in both hills and valleys to upload in their social media.

    No positive results yet, neither reducing the violence or helping the people.

    — Licypriya Kangujam (@LicypriyaK) July 29, 2023 " class="align-text-top noRightClick twitterSection" data=" ">

یہ بھی پڑھیں:

واضح رہے کہ منی پور میں 3 مئی سے نسلی تشدد جاری ہے اور 88 دنوں کے بعد بھی کوئی فوری حل نظر نہیں آرہی ہے جس کی وجہ سے منی پور کی حالت زار بدستور تشویشناک بنی ہوئی ہے۔ اب لسیپریا کنگوجام جیسے کارکنوں اور ریاست کے روشن مستقبل کا مطالبہ کرنے والے عوام دونوں کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں اور حکام پر زور دے رہی ہیں کہ وہ خطے میں امن و سلامتی کی بحالی کے لیے خاطر خواہ کارروائی کریں۔

تیز پور (آسام): منی پور میں میتھئی قبیلے سے تعلق رکھنے والی 11 سالہ بھارتی ماحولیاتی کارکن لیسیپریا کنگوجم نے ریاست کے اہم مسائل پر اپنے تحفظات کا اظہار کرنے اور منی پور کی بات کے لیے سوشل میڈیا کا سہارا لیا ہے۔ انھوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کی 'من کی بات' کے بجائے 'منی پور کی بات' کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ اتوار کو ایک ٹویٹ میں، لیسیپریا نے اپنے ٹویٹ میں کہا، "پیارے پی ایم نریندر مودی جی، ہم آپ کی من کی بات نہیں سننا چاہتے، ہم منی پور کی بات سننا چاہتے ہیں۔ ہم واقعی میں مر رہے ہیں۔

منی پور میں جاری نسلی تشدد کے درمیان ماحولیاتی کارکن نے ریاست کو درہم برہم کرنے کی کوشش کرنے والی بیرونی طاقتوں کے خلاف زبردست احتجاج کے دوران لوگوں کو متحد کرنے کے لیے پی ایم مودی پر طنز بھی کسا۔ ایک اور ٹویٹ میں لیسیپریا نے کہا کہ امپھال میں ہونے والے اس احتجاج میں 3 لاکھ سے زیادہ لوگوں نے شرکت کی، جو خطے میں امن اور استحکام کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اس نے لکھا کہ "منی پور کو توڑنے کے لیے بیرونی طاقتوں کی مداخلت کے خلاف آج امپھال میں زبردست احتجاج شروع ہوا۔ 3 لاکھ سے زیادہ لوگ اس میں شامل ہوئے۔ منی پور ایک ہے اور ہم متحد ہیں! شکریہ مودی جی ہمیں متحد کرنے کے لیے!"

تاہم نوجوان کارکن نے منی پور میں پناہ گاہوں کا دورہ کرنے والے حزب اختلاف کے رہنماؤں پر بھی تنقید کی اور اس بات پر زور دیا کہ وہ صرف تصویر کے مواقع اور سوشل میڈیا پر تشہیر کے لیے متاثرین کا استعمال کر رہے ہیں۔ لیسیپریا کے مطابق اپوزیشن لیڈروں کی طرف سے ہمارے دکھ درد کو کم کرنے یا منی پور کی پہاڑیوں اور وادیوں میں ہونے والے تشدد کو روکنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے ہیں۔ چونکہ صورت حال بدستور کشیدہ ہے، خاص طور پر چورا چند پور، چنڈال اور کانگ پوکپی اضلاع میں، اس علاقے میں تعینات آسام رائفلز فورس کے لیے سیکورٹی کی صورتحال غیر یقینی ہے۔حملوں کا خوف منڈلاتا رہتا ہے، جس کی وجہ سے انہیں رات کو زمین پر سونا پڑتا ہے، اور اس بات کا یقین نہیں رکھتے کہ گولیاں کب لگ سکتی ہیں۔

  • Politicians visiting Manipur are doing nothing. They’re just going to have photos and videos with the victims in the relief camp in both hills and valleys to upload in their social media.

    No positive results yet, neither reducing the violence or helping the people.

    — Licypriya Kangujam (@LicypriyaK) July 29, 2023 " class="align-text-top noRightClick twitterSection" data=" ">

یہ بھی پڑھیں:

واضح رہے کہ منی پور میں 3 مئی سے نسلی تشدد جاری ہے اور 88 دنوں کے بعد بھی کوئی فوری حل نظر نہیں آرہی ہے جس کی وجہ سے منی پور کی حالت زار بدستور تشویشناک بنی ہوئی ہے۔ اب لسیپریا کنگوجام جیسے کارکنوں اور ریاست کے روشن مستقبل کا مطالبہ کرنے والے عوام دونوں کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں اور حکام پر زور دے رہی ہیں کہ وہ خطے میں امن و سلامتی کی بحالی کے لیے خاطر خواہ کارروائی کریں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.