یہ فیصلہ انصاف پر مبنی قومی رجسٹرار برائے شہریت (این آر سی) کے لیے جدوجہد کرنے والوں کے لیے انتہائی حیران کن ہے۔ آسام میں رہنے والے حقیقی بھارتیوں کی شہریت کے تحفظ کے لیے شروع سے ہی جہدوجہد کرنے والی جمعیۃ علما ریاست آسام کے صدر اور رکن پارلیمان مولانا بدرالدین اجمل قاسمی نے اس معاملہ پر اپنے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ پرتیک ہزیلا ایک قابل آئی اے ایس افسر تھے، اور این آر سی کی تیاری کا کام بڑی تندہی سے کر رہے تھے، اس لیے ان کے اچانک تبادلہ سے این آر سی کی تیاری میں مشکلات پیدا ہونے کا اندیشہ ہے۔
سنجے سنگھ کا سوال: آسام میں این آر سی نافذ کرنے کی اصل وجہ کیا تھی؟
مولانا بدرالدین اجمل نے کہا کہ ہم سپریم کورٹ کے فیصلہ پر سوال نہیں اٹھا رہے ہیں کیوںکہ ہمیں سپریم کورٹ سے ہی انصاف ملنے کی امید ہے البتہ جو افسر ابتدا سے ہی این آر سی جیسے پیچیدہ منصوبوں کو پورا کرنے میں مصروف تھے اور انہیں تمام باتوں کا تجربہ بھی حاصل تھا اسے آخری مرحلہ میں اس منصوبوں سے ہٹا کر کسی اور کو سونپنے سے خدشات کا پیدا ہونا فطری بات ہے۔
نہوں نے کہا کہ کئی مرتبہ ہمیں بھی ان سے اختلاف رہا ہے مگر اس کے باوجود ہم مانتے ہیں کہ انہوں نے حتی الامکان انصاف کرنے کی کوشش کی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کچھ مہینوں پہلے حکومتِ آسام اور مرکزی حکومت نے پرتیک ہزیلا سے ناراضگی کا اظہار کیا تھا کیونکہ وہ سپریم کورٹ کے علاوہ کسی کی بھی بات نہیں مان رہے تھے جبکہ حکومت ان سے اپنے حساب سے کام لینا چاہتی تھی۔
اس کے بعد حکومت نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تھی کہ پرتیک ہزیلا کے ساتھ ایک اور آئی ایس افسر کو اس کام کا ذمہ دار بنایا جائے مگر عدالت نے اسے نا منظور کر دیا تھا لیکن خدا جانے ابھی ایسا کیا ہوا کہ عدالت نے اچانک ہزیلا کے تبادلہ کا حکم صادر کر دیا کیونکہ فیصلہ سناتے وقت ججوں نے کوئی وجہ نہیں بتائی ہے۔
مولانا اجمل نے کہا کہ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا قاری سید عثمان منصور پوری اور جنرل سکریٹری مولانا سید محمود اسعد مدنی کی زیر سرپرستی جمعیۃ علماء صوبہ آسام انصاف کی حصولیابی کے لیے قانونی جدوجہد جاری رکھے گی۔
انہوں نے کہا کہ ہم امید کرتے ہیں کہ ہزیلا کی جگہ اسی درجہ کے کسی قابل اور انصاف پسند افسر کو یہ ذمہ دای سونپی جائے گی اور عدالت عظمی اس پر اپنی پوری نگرانی رکھے گی۔
واضح رہے کہ این آر سی کے کیس کی شنوائی جیسے ہی شروع ہوئی چیف جسٹس نے کہا کہ ہم پرتیک ہزیلا کا ٹرانسفر مدھ پردیش کرنے کا حکم دیتے ہیں۔ اس پر عدالت میں موجود اٹارنی جنرل کے کے وینو گوپال نے پوچھا کہ کیا اس کی کوئی وجہ ہے؟ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی بھی آرڈر بغیر وجہ کے نہیں دیا جاتا مگر وہ وجہ بتانا ضروری نہیں ہے۔ اس سے پہلے کہ کوئی دوسرا سوال کرتا جج صاحبان عدالت سے جانے کے لیے کھڑے ہو گئے۔
شنوائی کے دوران جمعیۃ علماء صوبہ آسام کی جانب سے سینئر وکیل بی ایچ مالا پلے، وکیل نذرالحق مزاربھیا، وکیل عبدالصبور تپادر اور وکیل منصور علی وغیرہ موجود تھے جبکہ مولانا بدرالدین اجمل صاحب کی ہدایت پر مولانا منظر بلال قاسمی بھی عدالت میں حاضر تھے۔ یاد رہے کہ آسو، بی جے پی، آر ایس ایس اور مرکزی و ریاستی سرکاروں کے بے انتہا دباو اور تنقید کے باوجود ہزیلا نے این آر سی کی تیاری میں انصاف کے تقاضوں پر عمل کرنے کی کوشش کی ہے۔ ان کا یہ طرزِ عمل اُن فرقہ پرستوں کو بالکل بھی پسند نہیں تھا جن کو بھرم تھا کہ کم سے کم تیس یاچالیس لاکھ مسلمانوں کا نام این آر سی میں نہیں آئے گا۔ اسی لیے وہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کا بار بار تصدیق ہو جبکہ ہندوں کے ساتھ رعایت کی جائے مگر ہزیلا نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔
این آر سی کی فائنل لسٹ شائع ہونے سے پہلے حکومتِ آسام اور مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کر کے مطالبہ کیا تھا کہ بارڈر کے اضلاع جہاں مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے وہاں کم سے کم 20 فیصد اور باقی اضلاع میں کم سے کم 10 فیصد کا دوبارہ تصدیق ہو کیونکہ بہت سے بنگلہ دیشیوں کا نام آگیا ہے مگر پرتیک ہزیلا نے کورٹ میں یہ کہکر اس کی مخالفت کی تھی ہم 27 فیصد کا پہلے ہی دوبارہ تصدیق کر چکے ہیں اس لیے پھر سے تصدیق کا مطلب وقت برباد کرنا ہوگا۔ جس کے نتیجہ میں کورٹ نے سرکار کے مطالبہ کو خارج کر دیا تھا۔ جس کے بعد رہنماوں اور کچھ وزراء نے ہزیلا اور سپریم کورٹ پر بھی تنقید کی تھی اور کچھ فرقہ پرست ان کو دھمکیاں بھی دے رہے تھے۔