جسمانی طور سے معذور افراد طرح طرح کے مصائب و مشکلات سے دوچار ہوتے ہیں، لیکن کچھ افراد ایسے بھی ہوتے ہیں جنکی معذوریت ان کی کامیابی کی راہ میں حائل نہیں ہوتیں، ایسے ہی دو نام طارق بشیر اور زاکیہ منظور معذور افراد کے لیے مشعل راہ ہیں۔
طارق بشیر کی زندگی بچپن سے ہی تاریک تھی، لیکن انہوں نے علم کے نور سے اپنی زندگی کو اس وقت منور کیا جب انھوں نے 2009 میں کے اے ایس کا پریلمز امتحان کوالیفائی کیا، لیکن پبلک سروسز کمیشن کی جانب سے انہیں بینائی سے محرومیت کی بنا پر مینز کے امتحان میں بیٹھنے نہیں دیا گیا۔ اسکے باوجود طارق نے ہمت نہیں ہاری اور آج وہ جموں کشمیر کے ہائر ایجوکیشن میں بحثیت اسسٹنٹ پروفیسر کے اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
دوسرا نام دہلی یونیورسٹی سے بی اے کی ڈگری حاصل کر رہی بجبہاڑہ کی ذاکیہ منظور کا ہے جن کی کہانی طارق سے کچھ مختلف نہیں ہے، آنکھوں کی بینائی سے محروم ذاکیہ کو اپنے آبائی ریاست میں معذور بچوں کے لیے بہتر سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا رخ کرنا پڑا جہاں انھوں 10+2 کے امتحان میں نمایاں نمبرات حاصل کیا۔
جسمانی طور سے معذور افراد کے تعاون کے لیے انفرادی طور سے کام کرنے کے ساتھ ساتھ اجتماعی طور سے بھی کام کرنا نہایت ضروی ہے، وہیں حکومت کی جانب سے ایسے اقدامات اٹھائے جانے کی ضرورت ہے جس سے معذور افراد کو بہتر زندگی گزارنے میں آسانیاں پیدا ہوسکے۔
حال ہی میں پدم وبھوشن سے اعزاز یافتہ جاوید ٹاک نے ایسے افراد کے لیے مشعل راہ ہیں جنہوں نے جینے کی امید چھوڑی ہے ۔ ایسے افراد کے حقوق کے لئے سرگرم جاوید ٹاک کا ذکر وزیراعظم نریندرا مودی نے من کی بات پروگرام میں بھی کیا۔ تاہم جاوید بھی سرکار کی جانب سے ایسے افراد کی بازآبادکاری کے لیے اٹھائے گئے اقدامات سے کافی غیر مطمئن ہیں۔
واضح رہے کہ 2011 کے مطابق اگرچہ جموں کشمیر میں جسمانی طور پر کمزور افراد کی تعداد 36 ہزار ہے تاہم غیر سرکاری اداروں کے جائزے کے مطابق یہ تعداد اب 8 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔
عالمی یوم معذور ہر سال 3دسمبر کو منایا جاتاہے، اس دن کی مناسبت سے دنیا کے مختلف ممالک میں معذور افراد کے مسائل، ان کی تعلیم و تربیت اور انہیں معاشرے کے دیگر افراد کے برابر لانے کے لیے مختلف قسم کے پروگرام ، سیمینار، محفلیں اور ریلیاں منعقد کی جاتی ہیں۔