یہ بات عیاں ہے کہ وادی کا کسان اکثر و بیشتر نامساعد حالات یا قدرتی آفات کا شکار ہوتا رہا ہے۔ جہاں گزشتہ برس سیب کے باغات کو اسکیب نامی بیماری نے اپنی زد میں میں لے کر کسانوں کا حال بے حال کردیا۔
وہیں رواں برس شدید ژالہ باری نے میوہ کاشتکاروں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ تاہم ستم ظریفی ہے کہ سرکار کی جانب سے کسانوں کے لئے ابھی تک کراپ انشورنس اسکیم متعارف نہیں کی گئی ہے۔
میوہ کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ وہ سنہ 2011 سے سرکار سے کراپ انشورنس اسکیم متعارف کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔ کراپ انشورنس اسکیم کو متعارف کرنے کے لئے سرکار کی جانب سے کئی بار وعدے بھی کئے گئے تاہم زمینی سطح پر وہ سب وعدے کھوکھلے ثابت ہوئے، جس کی وجہ سے ہم مایوس ہیں۔
کسانوں و میوہ کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ وہ ہمیشہ اپنی فصل کو لے کر کافی فکر مند رہتے ہیں۔ ان میں یہ خوف لاحق رہتا ہے کہ کہیں قدرتی آفت کی وجہ سے ان کی سال بھر کی محنت ضائع نہ ہوجائے۔
میوہ کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ کاشتکاری کے لئے درکار کھاد، ادویات و دیگر ضروری سامان پر کثیر رقم خرچ کرنا پڑتا ہے، بعض اوقات ان چیزوں کو خریدنے کے لئے قرضہ لینا پڑتا ہے۔ تاہم ژالہ باری و دیگر آفات کی زد میں آنے کے بعد وہ قرض کے بوجھ تلے دب جاتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ کسانوں کو معاشی طور مستحکم کرنے اور ان کے ذریعہ معاش کو تحفظ فراہم کرنے کے لئے سرکار کی جانب سے غیر سنجیدگی کا مظاہرہ کیا جارہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کشمیر میں آرگینک فارمنگ کیوں ہو رہی ہے مقبول؟
ادھر ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے ہارٹیکلچر مارکیٹنگ اینڈ پلاننگ کے ڈائریکٹر وشیش مہاجن نے کہا کہ کراپ انشورنس اسکیم کے بارے میں اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔
انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ جلد ہی کسانوں کی اس دیرینہ مانگ کو پورا کیا جائے گا۔