وادی میں سیب کی کاشت سے جڑے کسان اکثر و بیشتر بیوپاریوں اور کمیشن ایجنٹس کے قرضہ کے محتاج ہوتے ہیں۔ یہ کسان ہر سال بیوپاریوں سے پیشگی یعنی ایڈوانس رقم لیتے ہیں، اُسی رقم سے کاشتکاری کے لیے درکار کیمیائی کھاد، جراثیم کش ادویات و دیگر ضروری سازو سامان خرید کر اپنے باغات کی آبیاری کرتے ہیں۔
قرضے پر لی گئی اس رقم کو نہ صرف کاشتکاری کے لئے خرچ کیا جاتا ہے بلکہ اس سے سال بھر کسانوں کا چولہا بھی چلتا ہے۔ تاہم کورونا وائرس کے تناظر میں کئے گئے لاک ڈاون کی وجہ سے اس عمل میں کافی رکاوٹیں حائل ہو گئی ہیں۔
کسانوں کے مطابق موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے میوہ بیوپاری اور کمیشن ایجنٹس انہیں پیشگی رقم فراہم کرنے سے فی الحال انکار کر رہے ہیں۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ بیوپاری مارچ کے مہینے میں ہر سال پیشگی رقم ان کے کھاتے میں جمع کرتے تھے، تاہم رواں برس رقم کی عدم دستیابی کی وجہ سے کسانوں کو باغات کے لئے ادویات، کھاد اور دیگر ضروری سامان خریدنا مشکل ہو گیا ہے۔
سیب کے باغات کے لئے مارچ اور اپریل کا مہینہ کافی اہمیت کا حامل ہوتا ہے، اس موسم میں سیب، آڑو، ناشپاتی و دیگر کئی اقسام کے میوہ درختوں کے شگوفے نکل آتے ہیں، ان دو ماہ کے اندر کئی بار جراثیم و پھپھوند کُش ادویات کا چھڑکاؤ اور کئی طرح کی کیمیائی کھاد کا استعمال لازمی ہوتا ہے۔
تاہم لاک ڈاؤن کی وجہ سے اس عمل میں رکاوٹیں حائل ہونے کے سبب کاشتکار مشکلات سے دوچار ہیں، جس سے نہ صرف کسانوں کو روزی روٹی کا انتظام کرنا مشکل ہو گیا ہے بلکہ اس سے زراعت کے شعبہ پر برے اثرات مرتب ہونے کا اندیشہ نظر آرہا ہے۔
وہیں لاک ڈاون کے سبب کسان بازاروں سے زمینداری کے لئے درکار ضروری اشیاء بھی نہیں خرید پا رہے ہیں، نتیجتاً اس سے کھیتی سے جڑی تمام سرگرمیوں پر خلل پڑرہا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ برس دفعہ 370 کی منسوخی کے بعد وادی میں پیدا شدہ صورتحال کی وجہ سے وادی سے سپلائی کی جانے والی سیب کی بر آمدات میں 1.35لاکھ میٹرک ٹن کی کمی واقع ہوئی تھی۔
کسانوں کا کہنا ہے کہ سرکار کو ایک ایسا لائحہ عمل مرتَّب کرنے کی ضرورت ہے جس سے لاک ڈائون اور سماجی دوری برقرار رکھنے کے سرکاری حکمنامے کا وقار بھی برقرار رہے اور غریب کسان بھی اس دوہری مشکل سے بچ سکیں۔