نئی دہلی: بھارت کے سابق وکٹ کیپر سریندر کھنہ کا ماننا ہے کہ بھارت اور نیوزی لینڈ کے درمیان جو بھی ٹیم اپنے اعصاب پر قابو رکھے گی وہ ممبئی میں ہونے والے آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ 2023 کے پہلے سیمی فائنل میں فاتح بن کر ابھرے گی۔ ای ٹی وی بھارت کے راکیش ترپاٹھی کے ساتھ خصوصی بات چیت کے دوران سابق وکٹ کیپر سریندر کھنہ نے یہ بھی کہا کہ کوئی بھی کھلاڑی اپنے کھیل کے تئیں سنجیدہ نہیں ہوسکتا جو اپنے کھیل میں بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے لیے دباؤ محسوس نہیں کرتا ہو۔ سریندر کھنہ نے سیمی فائنل میں ٹاس کی اہمیت، ویراٹ کوہلی کے متبادل اور روہت کی کپتانی کے علاوہ دیگر موضوعات پر بھی گفتگو کی۔
ہم یہاں سابق بھارتی کرکٹر سریندر کھنہ کے ساتھ خصوصی انٹرویو کے کچھ اقتباسات کو پیش کر رہے ہیں۔
سوال: ورلڈ کپ 2023 کا پہلا سیمی فائنل بھارت اور نیوزی لینڈ کے درمیان ہے، اس میچ میں کون فیورٹ ہے؟
جواب: نیوزی لینڈ نے ورلڈ کپ کے آخری دو فائنل کھیلے ہیں اور اس ٹورنامنٹ میں دونوں ٹیموں کی اب تک کی موجودہ فارم کو دیکھتے ہوئے میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ بھارت نے اب تک بہترین کرکٹ کھیلی ہے اور اپنے تمام میچ آرام سے جیتے ہیں۔ لیکن یہ ناک آؤٹ میچ ہے اس لیے اس دن بھارت کی کارکردگی میچ کے نتیجہ کو طے کرے گی اور اس دن جو ٹیم بہتر کھیلے گی وہی ٹیم فاتح بھی ہوگی۔آج سے پہلے جو کچھ ہوا وہ ریکارڈ بک میں ہے۔ فائنلسٹ کا فیصلہ بدھ کو ہوگا لیکن میں بھارتی ٹیم کو فیورٹ سمجھتا ہوں۔
سوال: یہ ایک عام تاثر ہے کہ بھارت ناک آؤٹ میچوں میں دباؤ میں آجاتا ہے، کیا یہ سچ ہے؟
جواب: یقینی طور پر بین الاقوامی میچز میں دباؤ ہوتا ہے۔ لیکن یہ کہنا مناسب نہیں ہوگا کہ ناک آؤٹ مرحلے میں پریشر ہوتا ہے اور لیگ مرحلے کے میچ میں نہیں ہوتا ہے۔ جب آپ ملک کے لیے کھیلتے ہیں تو آپ پر ہمیشہ دباؤ رہتا ہے۔ اگر کوئی اس دباؤ کو محسوس نہیں کرتا ہے تو مجھے یقین ہے کہ وہ اپنے کھیل کے بارے میں سنجیدہ نہیں ہے۔ ایک مرتبہ میں نے 100 میٹر ریس میں ایک اولمپک چیمپئن سے بات کی تھی اور اس نے تین اولمپک گولڈ میڈل جیتے تھے، پھر بھی اس نے کہا تھا کہ جب میں ٹریک پر آتی ہوں تو مجھے نہیں معلوم کہ آج کیا ہو گا۔
انھوں نے کہا کہ ویراٹ کوہلی اور روہت شرما کی بلے بازی کرتے ہوئے دیکھنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بیٹنگ کتنی آسان ہے۔ ایسے ہی نیوزی لینڈ کے کپتان کین ولیمسن بھی ہیں۔ جن پر یہ کہاوت سچ ثابت ہوتی ہے کہ " محنت اتنی خاموشی سے کرو کامیابی شور مچانے لگے۔ یقینا ہمارے کھلاڑیوں کی چرچہ زیادہ ہوتی ہے اور بلیک کیپس کی اتنی نہیں ہوتی ہے اس کے باوجود ان کا کام کسی اور سے کم نہیں ہے۔ ولیمسن نظم و ضبط کا حامل ہے اور وہ بہت زیادہ منصوبہ بندی کے ساتھ کھیلتے ہیں اور بڑی بڑی باتیں نہیں کرتے اس لیے ان کا کام بولتا ہے۔ سیمی فائنل کا مقابلہ سخت اور دلچسپ ہوگا اور صرف وہی ٹیم فاتح بنے گی جو اس دن اپنے اعصاب پر قابو رکھے گی۔
سوال: ممبئی میں وانکھیڑے کی پچ سرخ مٹی کی ہے جہاں پہلی اننگز میں بڑا اسکور بھی بنتا ہے۔ کرکٹ پنڈتوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر آپ ٹاس جیت گئے تو آپ میچ بھی جیت گئے، کیا سیمی فائنل میں ٹاس جیتنا اتنا اہم ہوگا؟
جواب: ٹاس کے علاوہ بھی بہت سے عوامل ہیں۔ بھارتی کپتان روہت تجربہ کار ہیں اور انہوں نے ممبئی انڈینس کو تین سے چار مرتبہ آئی پی ایل ٹرافی جتوائی ہے۔ روہت کا تعلق ممبئی سے ہے جو ان کا آبائی مقام ہے۔ٹیم کے چار کھلاڑی بھی ممبئی سے ہیں اور یہ ٹیم کے حق میں کام کر سکتے ہیں۔ ہم انہی میدانوں پر کھیلتے ہیں جہاں آئی پی ایل کے میچ کھیلے گئے تھے۔ یہ ایک طرح سے اسے برابری کا میدان بناتا ہے۔ یہ دیکھنا باقی ہے کہ وکٹ کیسے برقرار رہتی ہے کیونکہ وہاں گرمی اور نمی بہت زیادہ ہے۔ میکسویل نے افغانستان کے خلاف اکیلے ہی ڈبل سنچری اسکور کی، جس کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ میکسویل کے پیر میں کھیچاو تھا کیونکہ جب آپ ممبئی میں کھیلتے ہیں تو پانی کی کمی اور نمک کی کمی ہوتی ہے، اس لیے ہندوستان اور نیوزی لینڈ دونوں کے کھلاڑی یہاں آئی پی ایل میں کھیلتے ہیں اور یہاں کے حالات سے واقف ہیں۔
یہ بھی پڑھیں
- موجودہ بھارتی ٹیم 1970 کی طاقتور ویسٹ انڈیز ٹیم سے بھی بہتر: سابق کرکٹر سنیل والسن
- یہ ٹیم اب تک کی سب سے مضبوط بھارتی ٹیموں میں سے ایک ہے: سابق کرکٹر فاروق انجینیئر
- ورلڈ کپ 2023 جیتنے کے لیے ٹیم انڈیا فیورٹ: محمد اظہر الدین
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ہمارے پاس رویندر جڈیجہ ساتویں نمبر پر ہیں اور وہ بھی اچھی گیند بازی کرتے ہیں۔ ہمارے بلے باز نمبر نو تک بیٹنگ کرتے ہیں لیکن اگر ٹاپ بلے باز اچھی کارکردگی دکھاتے ہیں اور پچاس اوورز کھیلتے ہیں تو اچھا ہو گا۔ بھارت کو اپنی صلاحیت کے مطابق کھیلنا چاہیے۔ ایک کرکٹر کے طور پر میں چاہتا ہوں کہ ہم ایک اچھا سیمی فائنل کھیلیں لیکن ایک بھارتی کے طور پر میں چاہوں گا کہ ٹیم انڈیا جیت کر فائنل کھیلے۔
ٹاس کا اثر زیادہ نہیں ہو سکتا ہے کیونکہ ہم بھی اچھی طرح ہدف کا تعاقب کر سکتے ہیں اور ویراٹ کوہلی اس میں ماسٹر ہیں۔ اسی ورلڈ کپ میں جب ہم نے پہلے بیٹنگ کی تو ہم نے بڑا اسکور کھڑا کیا اور جب ہم نے ہدف کا تعاقب کیا تو اس وقت بھی ہم نے اچھے کھیل کا مظاہرہ کیا۔ کپتان پر بہت کچھ منحصر ہوتا ہے اگر کپتان پرفارم کرتا ہے تو وہ دیگر بلے بازوں سے بھی پرفارم کروا لیتا ہے۔ اس کی مثال پاکستان کے کپتان بابر اعظم ہیں جو کپتانی کے دباؤ کو برداشت نہیں کر سکے اور اس سے ان کی بیٹنگ بھی متاثر ہوئی ہے۔
سوال: بھارتی گیندبازی کے بارے میں آپ کیا کہیں گے؟
جواب: اگر ہم پچھلے دو سالوں پر نظر ڈالیں تو محمد شامی، محمد سراج اور ہمارے اسپنرز مسلسل اچھی کارکردگی دکھا رہے ہیں۔ بمراہ چوٹ سے واپس آنے کے بعد جس طرح سے گیند کو اندر اور باہر سوئنگ کرا رہے ہیں اس طرح سے نیوزی لینڈ کے صرف ٹرینٹ بولٹ اور میٹ ہنری کرا پارہے ہیں۔ بمراہ کے آنے سے ہماری گیند بازی بہت اچھی اور متوازن ہوگئ ہے۔ بمراہ پہلے چند اوورز میں مخالف بلے بازوں کو خاموش رکھنے میں کامیاب رہے ہیں۔اس کے علاوہ، فیلڈنگ نے ہماری باؤلنگ کی کارکردگی کو ناقابل یقین حد تک مدد دی ہے۔ دونوں ٹیمیں متوازن ہیں اور اس دن صرف وہی ٹیم جیت پائے گی جو اپنے اعصاب پر قابو رکھے گی۔ میں چاہتا ہوں کہ بھارت جیتے۔
سوال: ویراٹ کوہلی کی عمر 35 سال ہے، ان میں ابھی بھی کتنی کرکٹ باقی ہے؟
جواب: عمر صرف ایک نمبر ہوتا ہے۔ اگر آپ کو رنز بنانے کی بھوک ہے تو آپ کی باڈی لینگویج اس کی عکاسی کرتی ہے۔ بڑے کھلاڑی اپنی ریٹائرمنٹ کا فیصلہ خود کرتے ہیں۔ ولیمسن، روٹ، کوہلی اور اسمتھ کے ریٹائر ہونے کے بعد کرکٹ دنیا میں ایک بہت بڑا خلا پیدا ہو جائے گا کیونکہ وہ تکنیکی طور پر اچھے کھلاڑی ہیں۔ ان سب کی سنچریوں کا مجموعہ 125 کے قریب ہوگا۔ ان کے ریٹائرمنٹ کے بعد بعد کرکٹ کی دنیا ان سب کو یاد کرے گی۔
سوال: ویراٹ کوہلی کا متبادل کون ہو سکتا ہے؟
جواب: سنیل گواسکر اور گنڈپا وشواناتھ کی ریٹائرمنٹ کے بعد بھارت کو کپل دیو، سورو گنگولی اور سچن تنڈولکر جیسے بڑے کھلاڑی ملے۔ اب اس دور میں ویرات کوہلی ہیں۔ ہر دور میں بڑے کھلاڑی پیدا ہوتے ہیں۔ انڈین پریمیئر لیگ نے کرکٹ کو ایک بڑا کھیل بنا دیا ہے۔ کھلاڑی اب 42 یا 44 سال کی عمر تک کھیل رہے ہیں اور کوئی بھی بڑے کھلاڑیوں کی جگہ نہیں لے سکتا۔