نئی دہلی: کرکٹ کی دنیا میں ویوین رچرڈز کا نام کون نہیں جانتا۔ ایک ایسا بلے باز جس کی سویگ اور ہٹ کرنے کی صلاحیت کا اندازہ ہر دور کے بلے بازوں کی صلاحیتوں سے لگایا جاتا ہے۔ دائیں ہاتھ کے اس جارح بلے باز کا بیٹنگ کرنے کا انداز دوسرے بلے بازوں سے جدا رہا۔ رچرڈز جب بلے بازی کے لیے میدان میں اترتے، تو بڑی ہی شان سے بیٹنگ کرنے آتے تھے۔ گیند بازوں کی دھڑکنیں تیز ہو جاتی تھیں۔ تماشائیوں کا جوش دوبالا ہو جاتا اور تبصرہ نگاروں کی آوازوں میں تال میل بڑھ جاتا تھا۔ ایک نڈر اور بہادر بلے باز جس نے بلے بازی کے لئے کبھی ہیلمٹ پہننا ضروری نہیں سمجھا ۔ رچرڈز جنہیں اپنے دور کا سب سے تباہ کن بلے باز کہا جاتا ہے، بڑے بڑے گیند باز ان کی بلے بازی کے آگے تھرّاجاتے تھے۔ وہ بہت ہی آسانی سے گیند کو اسٹیڈیم کے پار پہنچانے میں مہارت رکھتے تھے۔ بعض اوقات تو حریف ٹیم کے گیند باز ان کے سامنے گیند بازی کرنے سے کتراتے تھے۔ اس زمانے میں جب رچرڈز نے بغیر ہیلمٹ کے کھیلنا شروع کیا تو تیز بلے بازی کرنے کا رجحان بہت کم تھا۔ جارح بلے بازی جیسے الفاظ کم استعمال ہوتے تھے۔ لیکن جب سے ویو رچرڈز نے کھیلنا شروع کیا تو کرکٹ میں آگ، طوفانی، تیز، تباہ کن ، مہلک اور زبردست جیسی صفتوں جیسے الفاظ نے بلے بازی کے لئے اپنا مقام حاصل کر لیا ہے۔
رچررڈز کا پورا نام- آئزک ویوین الیگزینڈررچرڈز ہے۔ ا س 5 فٹ 10 انچ بلے باز کی پیدائش 7 مارچ 1952 کوسینٹ جان ویسٹ انڈیز میں ہوئی۔ انہوں نے ویسٹ انڈیز کے علاوہ گھریلوٹیمیں - گلیمورگن، کوئنز لینڈ، سمرسیٹ کے لئے بھی بلے بازی کی۔ویوین رچرڈز ویسٹ انڈیز کے ملک انٹیگوا اور باربوڈا میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد میلکم رچرڈز جیل میں ایک افسرکے عہدے پر فائز تھے۔ رچرڈز نے اینٹیگوا کے لیے کرکٹ کھیلی۔ ایک جیل افسر ہونے کے ناطے رچرڈزکے والد میلکم بہت سخت اور نظم و ضبط کے پابند تھے۔میلکم نے ویوین رچرڈز کی کرکٹ کھیلنے کے لیے بہت حوصلہ افزائی کی۔ ویو رچرڈز نے ہائی اسکول کے بعد تعلیم درمیان میں ہی چھوڑ دی اور اپنی تمام تر توجہ کرکٹ پر مرکوز کر دی۔ اس وقت ان کی عمر 18 برس تھی۔ رچرڈز 1975 اور 1979 کا ورلڈ کپ جیتنے والی ویسٹ انڈیز ٹیم کے رکن تھے ، کرکٹ کے شائقین آج بھی سال 1979 کے ورلڈ کپ کے فائنل میں ان کی 189 رنز کی جادوئی اننگز کو نہیں بھول سکے ہیں۔
ووین رچرڈز مقررہ اوورز کے فارمیٹ میں سب سے زیادہ دھماکہ خیز بلے بازوں میں سے ایک مانے جاتے ہیں ۔ تجربہ کار اور تیز گیند باز بھی ان کے سامنے کانپتے تھے۔ وہ کسی بھی باؤلنگ اٹیک کی دھجیاں بکھیرنے کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ وہ ڈینس للی، عمران خان جیسے تجربہ کار تیز گیند بازوں کی گیند کو باؤنڈری کے پار بہت آرام سے پہنچا دیا کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ٹیسٹ اور ون ڈے دونوں میں ان کی بیٹنگ اوسط 47 سے زیادہ تھی۔ اپنے کیریئر میں رچرڈز نے 121 ٹیسٹ کی 182 اننگز میں مجموعی طور پر 8540 رنز بنائے جس میں ان کی اوسط 50.23 تھی۔ انہوں نے اپنے ٹیسٹ کیریئر میں 24 سنچریاں اور 45 نصف سنچریاں بنائیں۔ انہوں نے 187 ون ڈے میچوں میں 11 سنچریاں اور 45 نصف سنچریاں بنا کر مجموعی طور پر 6721 رنز بنائے۔ ٹیسٹ میں جہاں ان کا بہترین اسکور 291 رنز تھا، وہیں ون ڈے میں ان کے ناقابل شکست 189 رنز تھے۔فرسٹ کلاس میچوں میں انہوں نے507 میچ کھیل کر 36212 رن بنائے جس میں ان کے 322 رن بہترین اسکور میں شمار کیاجاتا ہے۔ان میچوں میں انہوں نے 114 سنچریاں اور 162 نصف سنچریاں بنائیں۔
بنیادی طور پر رچرڈز بلے باز تھے۔ لیکن بلے بازی کے ساتھ ساتھ انہوں نے اسپین گیند بازی میں اپنے جوہر دکھائے۔121وہ رائٹ آرم سلو ، آف بریک گیند بازی کرتے تھے۔ ٹسٹ میچوں میں انہوں نے 1964 رن دے کر 32 وکٹ حاصل کئے۔ جبکہ 187 ایک روزہ میچوں میں انہوں نے 187 میچوں میں 5644 رن دے کر 118 وکٹ حاصل کیں۔ اس کے بعد دہلی میں کھیلے گئے اگلے ہی ٹیسٹ میں رچرڈز نے ناقابل شکست 192 رنز بنائے اور وہ حاوی ہو گئے۔ اس کے بعد اس نے کبھی پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا۔ جب وہ چیونگم چباتے ہوئے گراؤنڈ میں داخل ہوتے تھے تو گیند باز کو پسینہ آ جاتا تھا۔ وہ کرکٹ میں swag لانے کے لیے جانا جاتا ہے۔ تب تبصرے کرنے والے کہتے تھے- اس کرکٹر کی چال جنگل میں چلنے والے شیر کی طرح ہے۔
وویو رچرڈ نے اپنے ٹیسٹ ڈیبیو - 22 نومبر 1974 کو ہندوستان کے خلاف کیا جبکہ آخری ٹیسٹ - 08 اگست 1991 کو انگلینڈ کے خلاف کیا۔ انہوں نے اپنا پہلاایک روزہ میچ 7 جون 1974 کو سری لنکاکے خلاف کھیلا۔ جبکہ اپنا آخری ون ڈے - 27 مئی 1992 کو انگلینڈکے خلاف کھیلا۔ اگر یہ کہا جائے کہ ون ڈے کرکٹ کے قیام میں ویوین رچرڈز کا بڑا کردار تھا تو مبالغہ آرائی نہ ہوگی۔ انہوں نے 1975 سے 1991 کے درمیان ون ڈے میچوں میں 90 کے اسٹرائیک ریٹ سے بلے بازی کی۔ آج کے دور میں 90 کا اسٹرائیک ریٹ بہت بڑی بات ہے، جب وکٹیں بلے بازوں کے لیے زیادہ مددگار ثابت ہوئی ہیں۔ 1984 میں جب ون ڈے کرکٹ کا بچپن گزر رہا تھا، رچرڈز نے 170 گیندوں پر 20 چوکوں اور پانچ چھکوں کی مدد سے ناقابل شکست 189 رنز بنائے۔ ڈبل سنچری سے صرف 11 رنز دور تھے۔ تین سال بعد 1987 میں انہوں نے دوبارہ 187 رنز بنائے۔ ون ڈے میں سب سے زیادہ اسکور کا ان کا ریکارڈ 13 سال تک قائم رہا۔ 1997 میں پاکستان کے سعید انور نے بھارت کے خلاف 194 رنز بنا کر یہ ریکارڈ اپنایا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: Masaba Gupta's Father Birthday: مسابا گپتا نے اپنے والد کی 70ویں سالگرہ پر ایک پیار بھرا نوٹ شیئر کیا
ٹیسٹ میں سنچری بنانے کے لیے کوئی بھی کرکٹرہڑبڑی میں بلے بازی نہیں کرتا ۔اس زمانے میں ٹیسٹ کرکٹ اپنے دھیمے انداز کے لیے مشہور تھی۔ کوئی بھی بلے باز تباہ کن یا آتشی اننگز کھیلنے کے بارے میں سوچتا بھی نہیں تھا۔ ایسے میں رچرڈز نے صرف 56 گیندوں میں ٹیسٹ سنچری بنا کر ثابت کر دیا کہ وہ ایسے ہی جارحہ بلے باز نہیں ہیں۔ 1986 میں انہوں نے انگلینڈ کے خلاف صرف 56 گیندوں میں سنچری بنائی، یہ ریکارڈ 30 سال تک قائم رہا۔ 1987-88 میں ویوین رچرڈز کی کپتانی میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم ہندوستان کے دورے پر آئی۔ پہلا ٹیسٹ دہلی کے فیروز شاہ کوٹلہ گراؤنڈ میں کھیلا گیا۔ پہلے ہی ٹیسٹ میں رچرڈز نے 111 گیندوں میں 109 رنز کی دھماکہ خیز اننگز کھیل کر ہندستان کو پانچ وکٹوں سے شکست دی۔ وہ پہلے ہی تباہ کن بلے باز کے طور پر دنیا بھر میں شہرت رکھتے تھے۔ اس اننگز نے انہیں ہندوستان میں اورمشہور کر دیا۔ سال 1991 میں انہوں نے کرکٹ کو خیرباد کہہ دیا۔ لیکن اس وقت تک وہ بلاشبہ ڈان بریڈمین کے بعد دوسرے سب سے زیادہ بااثر کرکٹر بن چکے تھے۔ کرکٹرز کی آنے والی نسلوں میں بھڑکیلے انداز میں کھیلنے والے بلے بازوں کا موازنہ ہمیشہ رچرڈز سے کیا جاتا ہے۔ اور آئندہ بھی ہوتا رہے گا۔ آج کا ہر نوجوان بلے باز رچرڈز کے انداز کو کاپی کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
یو این آئی