امارات کرکٹ بورڈ (ای سی بی) نے بی سی سی آئی کی طرف سے باضابطہ خط موصول ہونے کی تصدیق کی۔ ای سی بی کے سیکریٹری جنرل مبشر عثمانی نے ایک بیان میں کہا کہ ہمیں بی سی سی آئی کی طرف سے باضابطہ خط موصول ہوا ہے اور اب ہم حکومت ہند کے اس فیصلے کے منتظر ہیں جو معاہدے کو حتمی شکل دے گی۔
سرکاری خط موصول ہونے کے بعد ای سی بی نے کورونا کے اس دور میں آئی پی ایل کے محفوظ اور کامیاب انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے متعلقہ حکام کے ساتھ مزید بات چیت اور کارروائی شروع کر دی ہے۔ عثمانی نے کہا کہ دنیا کے اس مشہور ٹورنامنٹ کی میزبانی کے لیے بہت کام کرنا ہوگا۔
آئی پی ایل کی گورننگ کونسل کے چیئرمین برجیش پٹیل نے حال ہی میں کہا تھا کہ متحدہ عرب امارات میں آئی پی ایل کی میزبانی کے لیے بھارتی حکومت سے منظوری مل جائے گی۔ رواں برس 29 مارچ سے آئی پی ایل کا انعقاد ہونا تھا۔ لیکن کورونا وائرس کے سبب لاک ڈاؤن اور سفری پابندی کے باعث بی سی سی آئی نے اسے غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا تھا۔
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کی طرف سے اکتوبر، نومبر میں آسٹریلیا میں ہونے والے ٹی 20 ورلڈ کپ سنہ 2021 تک ملتوی ہونے کے بعد ستمبر سے نومبر تک آئی پی ایل کے لیے ونڈو دستیاب ہو گئی تھی جس سے ایونٹ کے انعقاد کی راہیں صاف ہوگئی تھیں۔
آئی پی ایل کی گورننگ کونسل کے چیئرمین برجیش پٹیل نے کہا تھا کہ آئی پی ایل 19 ستمبر سے متحدہ عرب امارات میں ہوگی جبکہ اس کا فائنل 8 یا 10 نومبر کو ہوگا۔ تاہم بی سی سی آئی اس کے لیے حکومت ہند سے منظوری کے منتظر ہے۔
آئی پی ایل کے حوالے سے قطعی فیصلہ جلد آجائے گا۔ 8 یا 10 نومبر کو آئی پی ایل کے فائنل کے ساتھ بھارتی کھلاڑیوں کو آسٹریلیا میں قرنطینہ میں دو ہفتے رہنے کا پورا موقع ملے گا۔ بھارت کو 3 دسمبر سے آسٹریلیا میں چار ٹیسٹ میچوں کی سیریز کھیلنی ہے۔
متحدہ عرب امارات میں مقابلوں کے انعقاد کا ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ وہاں قرنطینہ کا مسئلہ آسان ہے۔ فی الحال جو بھی شخص متحدہ عرب امارات کا سفر کرتا ہے اس کے پاس پرواز کرنے سے قبل ٹیسٹ منفی ہونا ضروری ہے اور وہاں پہنچنے کے بعد دوبارہ ٹیسٹ کرانا ہوگا۔ اگر دونوں ٹیسٹ کے نتائج منفی ہوں گے تو پھر قرنطینہ میں رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص ٹیسٹ کرائے بغیر پرواز کرتا ہے تو اس کے لیے قرنطینہ میں رہنا لازمی ہوگا۔
آئی پی ایل میں 60 میچ ہوں گے اور 8 نومبر کو فائنل ہونے کی صورت میں ٹورنامنٹ 51 دن کا ہوگا۔ یہ ٹورنامنٹ اپنے اصل شیڈول میں 50 دن کا تھا اور ایک دن میں دو میچ کم ہی تھے اور یہی صورتحال متحدہ عرب امارات میں بھی برقرار رہنی ہے۔
عثمانی نے کہا کہ یہ ایک بہت بڑا سطح کا ٹورنامنٹ ہے اور اب ہمیں متحدہ عرب امارات میں اس کی میزبانی کے تمام پہلوؤں پر بات کرنے کے لیے ماہرین کو ساتھ لانے کی ضرورت ہے۔ ابو ظہبی، دبئی اور شارجہ اسپورٹس کونسلز، ابو ظہبی، دبئی اور شارجہ سیاحت کے ادارہ اور پولیس فورس اور متعلقہ سرکاری تنظیمیں جیسے متحدہ عرب امارات کی وزارت صحت اور روک تھام آئی پی ایل کے انعقاد میں مدد کرنے میں شامل ہوں گی۔ اس طرح کے ٹورنامنٹ کے انعقاد کے تجربہ رکھنے والے تمام اداروں کی مدد حاصل کی جائے گی اور ہم ٹورنامنٹ کے کامیاب انعقاد کا بہترین راستہ تلاش کرنے کے لیے مل کر کام کریں گے۔
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب متحدہ عرب امارات میں آئی پی ایل کا انعقاد ہوگا۔ اس سے قبل سنہ 2014 میں بھارت میں عام انتخابات کی وجہ سے آئی پی ایل کے پہلے 20 میچز متحدہ عرب امارات کے ابو ظبی، دبئی اور شارجہ میں کھیلے گئے تھے۔
عثمانی نے زور دیتے ہوئے کہا کہ ای سی بی اپنے سابقہ تجربے کے ساتھ ایک بار پھر آئی پی ایل کی میزبانی کرنے کی اچھی پوزیشن میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ ٹورنامنٹ کے انعقاد کے لیے کس چیز کی ضرورت ہے اور اس کے لیے ہمیں شروع سے ہی کس کے ساتھ بات چیت اور رابطہ قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ متحدہ عرب امارات کے پاس ابوظہبی، دبئی، اور شارجہ میں عالمی سطح پر بہترین پریکٹس سہولت اور اسٹیڈیم موجود ہیں جس کی وجہ سے ہمیں یقین ہے کہ آٹھ ٹیموں کے اس ٹورنامنٹ کی میزبانی کے لیے کافی سہولت میسر آئیں گی۔
ای سی بی کو ٹورنامنٹ کے کامیاب انعقاد کا بھی اس لیے یقین ہے کیونکہ متحدہ عرب امارات کورونا وائرس (وبائی بیماری) پر قابو پانے میں کامیاب رہا ہے۔ متحدہ عرب امارات میں کورونا سے متاثرہ افراد کی تیزی سے بازیابی کے ساتھ کورونا وائرس کے معاملات میں بھی مسلسل کمی واقع ہوئی ہے۔
عثمانی نے کہا کہ بورڈ کورونا وائرس کے وبا کے بعد کسی بھی طرح کے حفاظتی اقدامات پر عمل کرنے کا پابند ہے۔
ای سی بی نے کہا کہ وہ اب آئی پی ایل کے انعقاد کے لیے حکومت ہند سے منظوری حاصل کرنے کے علاوہ بی سی سی آئی سے مزید حکمت عملی کا انتظار کر رہا ہے۔