فلم مغل اعظم کے آصف کے جنون اور فلم فائنانسر شاہ پور کی پالن جی مستری کی شہنشاہ اکبر سے محبت کا ایک عظیم شاہکار ہے، نہ کوئی کے آصف دوبارہ پیدا ہوا اور نہ ہی مغل اعظم جیسی شاندار فلم بنانے کی کسی نے جسارت کی اور نہ کوئی اس کا وارث بنا ہے۔
مغل اعظم بمبئی کی فلمی دنیا پر ساٹھ سال کی بادشاہت رکھتی ہے۔
بیس ریل کی اس فلم کی شوٹنگ اتنی ہوئی تھی کہ تین اور فلمیں بن سکتی تھیں۔ کے آصف اور شاہ پور کی کے درمیان باپ بیٹے جیسے تعلقات اور نوک جھونک سے لیکر آصف صاحب اور فلم کے لیے عوامی جذبہ کی کہانی اور قصوں کو'داستان مغل اعظم' میں سمودیا ہے۔
بھوپال کے صحافی، شاعر اور مصنف راجکمار کیشوانی نے کئی سال کی محنت کے بعد کتابی شکل میں اسے دستیاب کرایا ہے۔ یہ کیشوانی کاجنون ہی تھا کہ ایک فلم کے ریلیز ہونے کے ساٹھ سال بعد بھی انہوں نے مغل اعظم کے بننے کی داستان لکھنے کا عزم کیا اور جنون کے نتیجے میں کریم الدین آصف بننے کی کوشش کی۔
داستان مغل اعظم میں وہ رقم طراز ہیں کہ 1922 میں بھارت میں دو واقعات پیش آئے۔ بظاہر ان کا ایک دوسرے سے کوئی تعلق نظر نہیں آتا تھا کیونکہ ایک طرف لاہور میں بیٹھے ایک ڈرامہ نگار امتیاز علی تاج نے ایک ڈرامہ 'انارکلی' لکھ دیا اور دوسری طرف اترپردیش کے اٹاوہ ضلع میں 14 جون 1922 کو ڈاکٹر فضل کریم اور بی بی غلام فاطمہ کے گھر ایک بچے کی پیدائش ہوئی اور اس کانام کریم الدین آصف رکھا گیا۔
تقریباً 22سال بعد دونوں میں آپسی رشتہ بن گیا جب ممبئی پہنچ کر کے آصف بن چکے کریم الدین آصف نے انارکلی کی کہانی سنی اور اسے اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا جو مغل اعظم کی شکل میں تکمیل کو پہنچی۔ درزی کا فن لیکر ممبئی پہنچے کے آصف اپنے وطن سے بہت محبت کرتے تھے اور اکبر اعظم کی نظروں سے دیکھتے ہوئے فلم کے ذریعہ اس داستان کو مکمل کرنے میں جانفشانی لگادی۔ ان مصنفوں کی ٹیم میں امان، وجاہت مرزا، نوشاد اور خود کے آصف بھی شامل تھے۔
مغل اعظم کے ریلیز ہونے کی نصف صدی اور پھر فلمی دنیا کے سو سال مکمل ہونے کے موقع پرکئے جانے والے سروے میں فلم کا نغمہ 'جب پیار کیا تو ڈرنا کیا' بھارتیوں کی پہلی پسند تھا۔
راج کمار کیشوانی کی داستان مغل اعظم نامی کتاب میں بتایا گیا ہے کہ 1945 میں مغل اعظم کا مہورت ہوا اور اس فلم میں دلیپ کمار اور نرگس بالترتیب شہزادہ سلیم اور انارکلی کے کردار میں پیش کیے گیے تھے لیکن فلم مکمل نہ ہوسکی تھی۔
مذکورہ کتاب 392صفحات پر مشتمل ہے۔ کے آصف کے ساتھ ساتھ فلم نے فلمساز شاہ پور جی پالن جی مستری کو بھی زندہ جاوید بنا دیا ہے۔ انہوں نے دو ہی فلموں مغل اعظم اور گنگا جمنا میں پیسہ لگایا تھا۔
مغل اعظم کے بارے میں بزرگ بتاتے ہیں کہ مراٹھا مندر کو 5 اگست 1960 کو دلہن کی طرح سجایا گیا تھا اور ایڈوانس بکنگ کے لئے لوگ راتوں میں سنیما گھر کے باہر سوتے تھے اور پولیس کو سخت حفاظتی انتظامات کرنے پڑتے تھے۔
اس درمیان قطار لگانے پر کئی بار تنازع پیدا ہوا اور ایک قتل بھی ہوگیا تھا۔ اس سلسلے میں جدہ میں مقیم ہندی فلموں کے شوقین بلکہ معلومات رکھنے والے امان اللہ نظامی نے کہا کہ کے آصف ایک ایسا بازی گر تھا جو فلمساز اور فائنانسر کو اپنی کہانی سناتے ہوئے ایسا ماحول بناتا تھا کہ سننے والے اس میں کھو جاتے اور ہر طرح سے مدد و تعاون کرنے کو راضی ہو جاتے تھے۔ مذکورہ فلم پر اس زمانے میں تقریباً چھ کروڑ روپے خرچ ہوئے تھے۔
راجکمار کیشوانی نے کہا کہ مہتاب جی گولچانے مراٹھا مندر کی شکل میں ایک شاندار سنیما گھر بنانے کا منصوبہ بنایا اور مراٹھا مندر ٹرسٹ کے ایک ٹرسٹی جیوجی راؤ سندھیا نے خوبصورت سنیما گھر بنایا۔ مہتاب گولچا سے 1956 میں دونوں کی ملاقات ہوئی اور یہ طے کیا گیا کہ سنیما گھر میں پہلی فلم مغل اعظم ریلیز ہوگی لیکن فلم کی تیاری میں تاخیر کے سبب بی آر چوپڑہ کی فلم سادھنا ریلیز کی گئی لیکن معاہدہ میں لکھا تھا کہ اگر مغل اعظم ریلیز ہوگی تو دوسری کوئی بھی فلم لگی ہو وہ اتار دی جائے گی۔