ETV Bharat / sitara

'میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر'

مجروح سلطان پوری ایک ایسا نام ہے، جس نے اپنے نغموں کے ذریعہ اردو زبان کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔

'میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر'
author img

By

Published : Oct 1, 2019, 10:03 AM IST

Updated : Oct 2, 2019, 5:22 PM IST

انہوں نے جو نغمہ بالی ووڈ کو دیے، ان میں 'اک دن بک جائے گا ماٹی کے مول، کتنا نازک ہے دل یہ نہ جانا، ہائے ہائے یہ ظالم زمانہ، جب دل ہی ٹوٹ گیا، ہم جی کے کیا کریں گے، ہمیں تم سے پیار کتنا' وغیرہ آج بھی لوگوں تسکین دل کے لیے ایک سامان ہے۔

میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر

مجروح سلطان پوری کی پیدائش سو برس قبل یکم اکتوبر سنہ 1919 کو ریاست اترپردیش کے ضلع سلطان پور میں ہوئی۔

ان کا اصل نام اسرارالحسن خان تھا، والد پیشہ سے سب انسپکٹر تھے، اور انھیں اعلیٰ تعلیم دینا چاہتے تھے، لیکن مجروح نے جب ساتویں جماعت پاس کی تو ان کا عربی و فارسی کی تعلیم کے لیے سات سالہ کورس میں داخلہ کرا دیا۔ اردو ، فارسی اور عربی میں مجروح نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔

درس نظامی کا کورس مکمل کرنے کے بعد عالم بنے، جس کے بعد لکھنؤ کے تکمیل الطب کالج سے یونانی طریقہ علاج میں تعلیم حاصل کی اورحکیم بن گئے۔

اپنا دواخانہ چلایا، جہاں وہ مریضوں کو حکیمانہ نسخوں سے صحتیاب کرتے تھے۔ حکیمی دواخانہ کے ساتھ ساتھ سلطان پور میں مشاعروں میں بھی حصہ لیتے تھے۔ شعر و شاعری کا شوق تھا۔ پھر ایک وقت آیا کہ حکمت اور طب کو چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے شعر و شاعری سے رشتہ جوڑ لیا۔

ایسے وقت میں ان کی ملاقات جگر مراد آبادی سے ہوئی اور ان کی صحبت نے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا۔ کم عمری سے ہی مشاعروں میں شرکت کرنے کے عادی مجروح اب بیرون ریاست مشاعروں میں بھی شرکت کرنے لگے تھے۔

شعر و شاعری اور فلموں میں نغمہ نگاری کے دوران انھوں نے اپنا تخلص مجروح رکھا اور پھر مجروح سلطان پوری کے نام سے ہی معروف ہو گئے۔ مجروح اردو غزل کے منفرد شاعر تھے، لیکن اُن کی غزلیات کی تعداد ستر سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اُن کا شمار ترقی پسند شعرا میں ہوتا ہے۔

مجروح اردو غزل کے منفرد شاعر تھے۔ اُن کا شمار ترقی پسند شعراٴ میں کیا جاتا ہے۔ جگر مرادآبادی کو مجروح اپنا استاد مانتے تھے۔ مجروح نے اپنا پہلا فلمی گیت 'غم دئے مستقل' سنہ 1945 میں فلم شاہجہاں کے لیے تحریر کیا تھا۔

اسی نغمے نے مجروح کو فلمی نغمہ نگاروں کی پہلی صف میں لا کھڑا کیا۔ جن کی ہر طرف دھوم مچ گئی ان کا یہ گیت آج بھی کانوں میں رس گھولتا ہے۔

پھر مجروح کا فلمی سفر پانچ دہائیوں تک چلتا رہا۔ البتہ مجروح کو یہ پسند نہیں تھا کہ ان کی شاعری کو فلم یا فلمی دنیا کے حوالے سے جانا جائے۔ ان کا فلمی گیت لکھنے کا اپنا ایک خاص انداز تھا ۔ فلمی گیتوں میں بھی مجروح نے ادبی تقاضوں کو برقرار رکھا۔

جب دل ہی ٹوٹ گیا، ہم جی کے کیا کریں گے، انتہائی مقبول ہوا۔ اس نغمے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ گیت کے۔ ایل۔ سہگل کے جنازے کے ساتھ بھی بجایا گیا۔

سہگل کی آواز میں مجروح کے گیت اس قدرمقبول ہوئےکہ ان کی گونچ گلی کوچوں میں سنائی دینے لگی اور مجروح کی شہرت کو گویا پر لگ گئے۔ انہیں پے درپے فلمیں ملنے لگیں۔ انہیں فلمی دنیا کے سب سے بڑے اعزاز دادا صاحب پھالکے سے نوازا گیا۔

ان کے فلمی گیتوں میں خیالات کی نازکی سے بخوبی اندازا لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ایک ایسے تخلیق کار کے قلم سے وجود میں آئے ہیں جوغزلی کی شاعری کا گہرا ادراک رکھتا ہے اور جس نے تمام رموز سامنے رکھ کر اپنے تجربات اشعار کے قالب میں ڈھالے ہیں۔

مجروح نے مسلسل پچاس برس فلمی دنیا کو دیے، انھوں نے 300 سے زائد فلموں میں ہزاروں گیت لکھے۔ ان کے سینکڑوں نغمے آج بھی ان کے شیدائیوں کے ذہنوں میں محفوظ ہیں۔

انھوں نے فلم 'تاج محل' میں نغمہ نگاری کی ذمہ داری مجروح کے سپرد کردی۔ اس فلم کے نغموں کی پسندیدگی کا یہ عالم تھا کہ سبھی کی زبان پر صرف مجروح کا ہی نام تھا۔

اس کے بعد ان کے پاس نغمہ نگاری کے لیے کئی پیش کش آئیں اور یہی موقع تھا جب وہ بالی ووڈ کے ہو کر رہ گئے۔ حالانکہ ایسا کہنا درست نہیں ہوگا کہ انھوں نے فلموں میں نغمہ نگاری کی اور ادب سے کنارہ کش ہو گئے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں کم و بیش 70 غزلیں لکھی ہیں جب کہ فلمی نغموں کی تعداد تقریباً 4000 ہے۔

ماہرین ادب کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ مجروح ادبی شاعری پر توجہ دینے کے بجائے فلمی دنیا کی نذر ہو گئے۔

جگر مراد آبادی کے شاگرد اور مشہور شاعر بیکل اتساہی نے مجروح کے بارے میں کیا خوب کہا ہے کہ 'مجروح ایک ایسے شاعر تھے جن کے کلام میں سماج کا درد جھلکتا تھا، انھوں نے زندگی کو ایک فلسفی کے نظریے سے دیکھا اور اردو شاعری کو نئی اونچائیاں عطا کیں'۔

دراصل مجروح کی نظر سماجی مسائل کے ساتھ زندگی کی کشمکش پر بھی رہتی تھی۔ وہ اپنے قلم کے ذریعہ سماجواد کا پرچم بلند کرنے والے شاعروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔

ترقی پسند مصنّفین کی تحریک سے وابستہ ہونے کے بعد وہ حکومت مخالف نظم لکھنے کی پاداش میں قید و بند کا شکار بھی ہوئے۔ یہ وہ دور تھا جب ان کی مالی حالت خراب ہو چکی تھی۔

سنہ 1949 میں مجروح کی پریشانیوں کو دیکھتے ہوئے بالی ووڈ کے 'شو مین' راج کپور نے ان کی مدد بھی کرنی چاہی تھی، لیکن مجروح کی خودداری کے کیا کہنے، انھوں نے ان کی پیشکش ٹھکرادی۔

راج کپور نے ایک نغمہ لکھنے کی فرمائش کی جس سے مجروح انکار نہیں کر سکے۔ اس موقع پر مجروح نے اپنے درد و الم کو کاغذ پر بکھیرتے ہوئے نغمہ لکھا، ایک دن بک جائے گا ماٹی کے مول، جگ میں رہ جائیں گے پیارے تیرے بول۔

راج کپور نے اس نغمہ کے لیے انھیں 1000 روپے معاوضے کے طور پر دیے تھے۔ یہ نغمہ راج کپور نے 1975 میں اپنی فلم 'دھرم کرم' میں شامل کیا تھا۔ مجروح نے فلموں میں روایتی انداز کی نغمہ نگاری سے ہمیشہ پرہیز کیا۔

شاعری کے لیے انھوں نے حکیمی کا پیشہ تو ترک کر دیا لیکن انسان کے نبض پر ان کا ہاتھ ہمیشہ رہتا تھا۔ انھوں نے جو کچھ محسوس کیا اسے نغمہ کے پیرایہ میں ڈھال دیا۔

ان کے تحریر کردہ نغمے دلیپ کمار، دیوآنند، راج کپور، سلمان خان،شاہ رخ خان اور عامر خان پر پکچرائز ہوئے اور سب کے سب مشہور ہوئے ۔

بالی وڈ کے تینوں خان مجروح سلطان پوری کے لکھے گئے گانوں کی وجہ سے مشہور ہوئے اور ان کی شناخت کا سبب وہی نغمے تھے۔ ایک سے بڑھ کر ایک گانے لکھے۔

مجروح، اردو فلم انڈسٹری کی شان ہیں۔ وہ ایک ایسا نام ہیں جنہوں نے اپنے لفظوں کے جادو سے کڑوروں انسانوں کو اپنا دیوانہ بنایا۔ اور ان کی وجہ سے بالی ووڈ کے کئی ہیروز کو عالمی شہرت ملی۔

فلمی دنیا کی مقبول نغمہ نگاری اور اردو شاعری کی لازوال خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے مجروح کو بھارت کے دو عظیم ایوارڈز 'اقبال سمّان ایوارڈ' اور 'دادا صاحب پھالکے ایوارڈ'سے سرفراز کیا گیا۔

ادب میں اپنی شعری صلاحیتوں اور فلمی دنیا میں اپنی نغمہ نگاری کی وجہ سے علیحدہ شناخت قائم کرنے والے مجروح سلطان پوری بھی آج ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ اردو غزل کے اس البیلے شاعر نے 24 مئی سنہ 2000 کو اس جہان فانی سے کوچ کیا۔

ان کا یہ شعر بے حد مقبول ہے۔

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

انہوں نے جو نغمہ بالی ووڈ کو دیے، ان میں 'اک دن بک جائے گا ماٹی کے مول، کتنا نازک ہے دل یہ نہ جانا، ہائے ہائے یہ ظالم زمانہ، جب دل ہی ٹوٹ گیا، ہم جی کے کیا کریں گے، ہمیں تم سے پیار کتنا' وغیرہ آج بھی لوگوں تسکین دل کے لیے ایک سامان ہے۔

میں اکیلا ہی چلا تھا جانبِ منزل مگر

مجروح سلطان پوری کی پیدائش سو برس قبل یکم اکتوبر سنہ 1919 کو ریاست اترپردیش کے ضلع سلطان پور میں ہوئی۔

ان کا اصل نام اسرارالحسن خان تھا، والد پیشہ سے سب انسپکٹر تھے، اور انھیں اعلیٰ تعلیم دینا چاہتے تھے، لیکن مجروح نے جب ساتویں جماعت پاس کی تو ان کا عربی و فارسی کی تعلیم کے لیے سات سالہ کورس میں داخلہ کرا دیا۔ اردو ، فارسی اور عربی میں مجروح نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔

درس نظامی کا کورس مکمل کرنے کے بعد عالم بنے، جس کے بعد لکھنؤ کے تکمیل الطب کالج سے یونانی طریقہ علاج میں تعلیم حاصل کی اورحکیم بن گئے۔

اپنا دواخانہ چلایا، جہاں وہ مریضوں کو حکیمانہ نسخوں سے صحتیاب کرتے تھے۔ حکیمی دواخانہ کے ساتھ ساتھ سلطان پور میں مشاعروں میں بھی حصہ لیتے تھے۔ شعر و شاعری کا شوق تھا۔ پھر ایک وقت آیا کہ حکمت اور طب کو چھوڑ کر ہمیشہ ہمیشہ کے لئے شعر و شاعری سے رشتہ جوڑ لیا۔

ایسے وقت میں ان کی ملاقات جگر مراد آبادی سے ہوئی اور ان کی صحبت نے اپنا رنگ دکھانا شروع کیا۔ کم عمری سے ہی مشاعروں میں شرکت کرنے کے عادی مجروح اب بیرون ریاست مشاعروں میں بھی شرکت کرنے لگے تھے۔

شعر و شاعری اور فلموں میں نغمہ نگاری کے دوران انھوں نے اپنا تخلص مجروح رکھا اور پھر مجروح سلطان پوری کے نام سے ہی معروف ہو گئے۔ مجروح اردو غزل کے منفرد شاعر تھے، لیکن اُن کی غزلیات کی تعداد ستر سے آگے نہ بڑھ سکی۔ اُن کا شمار ترقی پسند شعرا میں ہوتا ہے۔

مجروح اردو غزل کے منفرد شاعر تھے۔ اُن کا شمار ترقی پسند شعراٴ میں کیا جاتا ہے۔ جگر مرادآبادی کو مجروح اپنا استاد مانتے تھے۔ مجروح نے اپنا پہلا فلمی گیت 'غم دئے مستقل' سنہ 1945 میں فلم شاہجہاں کے لیے تحریر کیا تھا۔

اسی نغمے نے مجروح کو فلمی نغمہ نگاروں کی پہلی صف میں لا کھڑا کیا۔ جن کی ہر طرف دھوم مچ گئی ان کا یہ گیت آج بھی کانوں میں رس گھولتا ہے۔

پھر مجروح کا فلمی سفر پانچ دہائیوں تک چلتا رہا۔ البتہ مجروح کو یہ پسند نہیں تھا کہ ان کی شاعری کو فلم یا فلمی دنیا کے حوالے سے جانا جائے۔ ان کا فلمی گیت لکھنے کا اپنا ایک خاص انداز تھا ۔ فلمی گیتوں میں بھی مجروح نے ادبی تقاضوں کو برقرار رکھا۔

جب دل ہی ٹوٹ گیا، ہم جی کے کیا کریں گے، انتہائی مقبول ہوا۔ اس نغمے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ گیت کے۔ ایل۔ سہگل کے جنازے کے ساتھ بھی بجایا گیا۔

سہگل کی آواز میں مجروح کے گیت اس قدرمقبول ہوئےکہ ان کی گونچ گلی کوچوں میں سنائی دینے لگی اور مجروح کی شہرت کو گویا پر لگ گئے۔ انہیں پے درپے فلمیں ملنے لگیں۔ انہیں فلمی دنیا کے سب سے بڑے اعزاز دادا صاحب پھالکے سے نوازا گیا۔

ان کے فلمی گیتوں میں خیالات کی نازکی سے بخوبی اندازا لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ایک ایسے تخلیق کار کے قلم سے وجود میں آئے ہیں جوغزلی کی شاعری کا گہرا ادراک رکھتا ہے اور جس نے تمام رموز سامنے رکھ کر اپنے تجربات اشعار کے قالب میں ڈھالے ہیں۔

مجروح نے مسلسل پچاس برس فلمی دنیا کو دیے، انھوں نے 300 سے زائد فلموں میں ہزاروں گیت لکھے۔ ان کے سینکڑوں نغمے آج بھی ان کے شیدائیوں کے ذہنوں میں محفوظ ہیں۔

انھوں نے فلم 'تاج محل' میں نغمہ نگاری کی ذمہ داری مجروح کے سپرد کردی۔ اس فلم کے نغموں کی پسندیدگی کا یہ عالم تھا کہ سبھی کی زبان پر صرف مجروح کا ہی نام تھا۔

اس کے بعد ان کے پاس نغمہ نگاری کے لیے کئی پیش کش آئیں اور یہی موقع تھا جب وہ بالی ووڈ کے ہو کر رہ گئے۔ حالانکہ ایسا کہنا درست نہیں ہوگا کہ انھوں نے فلموں میں نغمہ نگاری کی اور ادب سے کنارہ کش ہو گئے، لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ انھوں نے اپنی زندگی میں کم و بیش 70 غزلیں لکھی ہیں جب کہ فلمی نغموں کی تعداد تقریباً 4000 ہے۔

ماہرین ادب کا تو یہاں تک کہنا ہے کہ مجروح ادبی شاعری پر توجہ دینے کے بجائے فلمی دنیا کی نذر ہو گئے۔

جگر مراد آبادی کے شاگرد اور مشہور شاعر بیکل اتساہی نے مجروح کے بارے میں کیا خوب کہا ہے کہ 'مجروح ایک ایسے شاعر تھے جن کے کلام میں سماج کا درد جھلکتا تھا، انھوں نے زندگی کو ایک فلسفی کے نظریے سے دیکھا اور اردو شاعری کو نئی اونچائیاں عطا کیں'۔

دراصل مجروح کی نظر سماجی مسائل کے ساتھ زندگی کی کشمکش پر بھی رہتی تھی۔ وہ اپنے قلم کے ذریعہ سماجواد کا پرچم بلند کرنے والے شاعروں میں شمار کیے جاتے ہیں۔

ترقی پسند مصنّفین کی تحریک سے وابستہ ہونے کے بعد وہ حکومت مخالف نظم لکھنے کی پاداش میں قید و بند کا شکار بھی ہوئے۔ یہ وہ دور تھا جب ان کی مالی حالت خراب ہو چکی تھی۔

سنہ 1949 میں مجروح کی پریشانیوں کو دیکھتے ہوئے بالی ووڈ کے 'شو مین' راج کپور نے ان کی مدد بھی کرنی چاہی تھی، لیکن مجروح کی خودداری کے کیا کہنے، انھوں نے ان کی پیشکش ٹھکرادی۔

راج کپور نے ایک نغمہ لکھنے کی فرمائش کی جس سے مجروح انکار نہیں کر سکے۔ اس موقع پر مجروح نے اپنے درد و الم کو کاغذ پر بکھیرتے ہوئے نغمہ لکھا، ایک دن بک جائے گا ماٹی کے مول، جگ میں رہ جائیں گے پیارے تیرے بول۔

راج کپور نے اس نغمہ کے لیے انھیں 1000 روپے معاوضے کے طور پر دیے تھے۔ یہ نغمہ راج کپور نے 1975 میں اپنی فلم 'دھرم کرم' میں شامل کیا تھا۔ مجروح نے فلموں میں روایتی انداز کی نغمہ نگاری سے ہمیشہ پرہیز کیا۔

شاعری کے لیے انھوں نے حکیمی کا پیشہ تو ترک کر دیا لیکن انسان کے نبض پر ان کا ہاتھ ہمیشہ رہتا تھا۔ انھوں نے جو کچھ محسوس کیا اسے نغمہ کے پیرایہ میں ڈھال دیا۔

ان کے تحریر کردہ نغمے دلیپ کمار، دیوآنند، راج کپور، سلمان خان،شاہ رخ خان اور عامر خان پر پکچرائز ہوئے اور سب کے سب مشہور ہوئے ۔

بالی وڈ کے تینوں خان مجروح سلطان پوری کے لکھے گئے گانوں کی وجہ سے مشہور ہوئے اور ان کی شناخت کا سبب وہی نغمے تھے۔ ایک سے بڑھ کر ایک گانے لکھے۔

مجروح، اردو فلم انڈسٹری کی شان ہیں۔ وہ ایک ایسا نام ہیں جنہوں نے اپنے لفظوں کے جادو سے کڑوروں انسانوں کو اپنا دیوانہ بنایا۔ اور ان کی وجہ سے بالی ووڈ کے کئی ہیروز کو عالمی شہرت ملی۔

فلمی دنیا کی مقبول نغمہ نگاری اور اردو شاعری کی لازوال خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے مجروح کو بھارت کے دو عظیم ایوارڈز 'اقبال سمّان ایوارڈ' اور 'دادا صاحب پھالکے ایوارڈ'سے سرفراز کیا گیا۔

ادب میں اپنی شعری صلاحیتوں اور فلمی دنیا میں اپنی نغمہ نگاری کی وجہ سے علیحدہ شناخت قائم کرنے والے مجروح سلطان پوری بھی آج ہمارے درمیان نہیں ہیں۔ اردو غزل کے اس البیلے شاعر نے 24 مئی سنہ 2000 کو اس جہان فانی سے کوچ کیا۔

ان کا یہ شعر بے حد مقبول ہے۔

میں اکیلا ہی چلا تھا جانب منزل مگر
لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا

Intro:Body:Conclusion:
Last Updated : Oct 2, 2019, 5:22 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.